وزیر خزانہ اسحٰق ڈار مالی تعاون حاصل کرنے کے لیے ابوظہبی میں موجود ہیں جہاں وہ سرکاری کمپنیوں کے شیئرز کو طے شدہ قیمتوں پر فروخت کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔
اپنے دورے کے پہلے روز اسحٰق ڈار نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے پبلک سیکٹر اداروں جیسے ابوظہبی اسٹیٹ ہولڈنگ کمپنی (ای ڈی کیو) انٹرنیشنل ہولڈنگ کمپنی اور اتصالات کی اعلیٰ انتظامیہ سے ملاقات کی۔
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا دورہ یو اے ای 13 نومبر بروز اتوار تک جاری رہنے کی توقع ہے۔
اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے اپریل میں اقتدار میں آنے کے فوری بعد متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا اور اماراتی قیادت سے 2 ارب 30 کروڑ ڈالر کے نئے قرضوں کی درخواست کی تھی۔
وزیر اعظم کو یقین دلایا گیا تھا کہ متحدہ عرب امارات کی بڑی سرکاری کمپنیاں اور خودمختار ادارے حکومت پاکستان کے 10 سے 15 فیصد شیئر ہولڈنگ کر سکتے ہیں اور براہ راست قرضوں کے بجائے پیشہ ورانہ کاروباری تعلقات قائم کرسکتی ہیں۔
متحدہ عرب امارات 2019 سے پاکستان کو 2 ارب ڈالر سے زائد کا قرضہ دے رہا ہے، رواں سال بھی ایک اور سال میں مارچ میں ادائیگی کی گئی، تاہم پاکستان کے محدود زرمبادلہ کے ذخائر کے پیش نظر حکام زیادہ سے زیادہ مدد کے لیے کوشاں ہے، اسحٰق داڑ نے رابطہ کرنے پر کوئی رد عمل نہیں کیا۔
یکم مئی کو شہباز شریف کے دورے کے بعد سے معاملات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے حکومت سے حکومت کے درمیان گفت و شنید کے ذریعے سرکاری کمپنیوں کے حصص کی فروخت کی اجازت دینے کے لیے پارلیمنٹ سے مجوزہ قانون منظور کرانے میں ناکامی ہے۔
کراچی کے قریب قطر گیس کے مجوزہ ایل این جی ٹرمینل پر سست روی کے علاوہ اسی وجہ سے قطر کی جانب سے یو اے ای جیسی پیشکش بھی پایہ تکمیل نہیں پہنچ سکی۔
ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسحٰق ڈار نے ابوظہبی میں اے ڈی کیو کے سی ای او محمد السوویدی اور اتصالات کے سید بصر سے ملاقات کی اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع پر تبادلہ خیال کیا۔
بیان میں کہا گیا کہ دونوں کمپنیوں نے توانائی، زراعت، ہیلتھ کیئر اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری میں خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا۔
اسی طرح اتصالات کے ایک وفد نے بھی وزیر خزانہ سے ملاقات کی اور انہیں پاکستان میں اس کے جاری آپریشنز اور مستقبل کے کاروباری منصوبوں سے آگاہ کیا۔
اسحٰ ڈار نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ پاکستان نے تقریباً 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانیوں کے علاوہ 2 روایتی دوستوں سے تقریباً 13 ارب ڈالر کی اضافی مالی امداد حاصل کی ہے جن میں سے 9 ارب ڈالر چین سے اور 4 ارب ڈالر سعودی عرب سے حاصل ہوں گے۔