لبنان کو اب نئے خُون کی ضرورت ہے ورنہ یہ نظام نہیں چل پائے گا

لبنان کے شہریوں نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بیروت دھماکوں پر حکوت کا مستعفی ہو جانا ہی کافی نہیں بلکہ بدعنوان اشرافیہ کو برطرف کیا جائے۔

خبر رساں ادارے روئٹڑز کے مطابق بیروت کی تباہ شدہ بندرگاہ کے قریب ’حکام کو پہلے دفناؤ‘ کے عنوان سے مظاہروں کا انعقاد کیا گیا جس کے شرکا نے دیگر حکومتی عہدیداروں کے برطرف ہونے کا بھی مطالبہ کیا۔

مظاہرے کے شرکا نے دیگر عہدیداروں کی برطرفی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ لبنان کا مسئلہ حکومت کے مستعفی ہونے سے ختم نہیں ہو جاتا۔ اگر صدر مشیل عون، سپیکر پارلیمان اور سارا نظام اسی طرح سے موجود ہے۔

چاندی کا کاروبار کرنے والے ایک شہری نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا مستعفی ہونا اچھی بات ہے، لیکن لبنان کو نئے خون کی ضرورت ہے ورنہ یہ نظام نہیں چل پائے گا۔

لبنان کی معاشی بدحالی، کرپشن اور غیرفعال حکومت کے بعد دھماکوں کے سانحے نے لبنان کے اکثر شہریوں کا سیاسی صورت حال سے مزید سمجھوتہ کرنا مشکل کر دیا ہے۔

لبنانی وزیراعظم حسن دیاب نے اپنی کابینہ کے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے رشوت اور بدعنوانی کو دھماکوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

روئٹرز کے مطابق گذشتہ ہفتے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ہونے والے دھماکے ملکی تاریخی کا سب سے بڑا سانحہ ہیں جس نے شدید مالی مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔

وزیراعظم حسن دیاب نے کہا کہ ان کا خیال تھا کی ریاست میں کرپشن کی جڑیں مضبوط ہیں لیکن حقیقت میں کرپشن ریاست سے بھی بالاتر ہے۔

دھماکوں کے بعد لبنان میں حکومت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے ،فوٹو: اے ایف پی

روئٹرز کے مطابق بیروت کی بندرگاہ سے متعلقہ معاملات اس فرقہ وارانہ نظام کی عکاسی کرتے ہیں جس کے تحت چند سیاست دان 1975 کی خانہ جنگی سے لے کر اب تک ملک پر قابض ہیں۔ اس نظام کے تحت بندرگاہ کے ڈائریکٹرز کی تعیناتی میں ہر مخصوص فرقے کا کوٹہ موجود ہے۔

حسن دیاب نے سیاسی اشرافیہ کو ملک میں اصلاحات نافذ کرنے میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔

لبنان حکومت کے عالمی مانیٹری فنڈ کے ساتھ جاری مذاکرات حکومت کے بینکوں اور سیاستدانوں کے ساتھ تنازعے کے باعث تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔

وزیراعظم حسن دیاب نے رواں سال جنوری میں حزب اللہ کی حمایت سے حکومت بنائی تھی۔ حسن دیاب اور ان کی کابینہ کے مستعفی ہونے پر صدر مشیل عون پارلیمانی اراکین کے ساتھ نئے وزیراعظم کے انتخاب پر مشاورت کریں گے۔

دھماکے ہونے کے ایک ہفتے بعد بھی بیروت میں سرچ آپریشن جاری ہے اور تیس سے چالیس افراد گمشدہ ہیں، جبکہ لاکھوں بے گھر ہو گئے اور ہزاروں زخمی ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں