پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت منقدہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے کو اپنے مؤقف کی تائید قرار دیتے ہوئے مراسلے کی تحقیقات سپریم کورٹ سے جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کروانے کا مطالبہ دہرایا۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے اعلامیے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے مؤقف کو تقویت ملی ہے اور یہ ثابت ہوگیا ہے مراسلہ درست تھا، سیاسی مداخلت ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ اس کی تحقیق کیسے کی جائے، آج کے اجلاس میں کوئی نئی بات نہیں کی، سپریم کورٹ ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دے اور وہ جوڈیشل کمیشن ایک اوپن سماعت میں اس بات کی تصدیق کرے کہ حقائق کیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس اعلامیے کو دیکھا تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی، اس اعلامیے اور قومی سلامتی کمیٹی اجلاس نے پچھلا 37 ویں اجلاس کے منٹس کی توثیق کردی یعنی ان پر مہر ثبت کردی۔
انہوں نے کہا کہ میں وزیراعظم شہباز شریف سے بصد احترام یہ پوچھنا چاہوں گا کہ اس اجلاس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی، اس اجلاس سے حاصل کیا ہوا، اس اجلاس سے مزید آپ نے اپنے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کو مخاطب کرکے ان کا کہنا تھا کہ آپ وزیرداخلہ نے جو پریس کانفرنس کی اس کا ذرا نوٹس لیجیے، اتنا اہم معاملہ زیربحث رہا ہے اور پوری قوم کے ذہنوں پر اس وقت سوار ہے لیکن وہ پریس کانفرنس میں اپنی گفتگو کا آغاز ایگزٹ کنڑول لسٹ (ای سی ایل) سے کرتے ہیں اور پورے 10 سے 12 منٹ کابینہ نے جو نئی سفارشات کی منظوری دی ہے اس پر گفتگو کر رہےہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا ہے لیکن وہ ای سی ایل کی تجاویز پر گفتگو کر رہے ہیں، کہہ رہے ہیں عمران خان کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی ہے، اس سے ظاہر کیا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت قوم کے ذہن پر سوار ہے کہ حقیقت کیا ہے، اس حکومت قانونی حیثیت پر سوال اٹھتا ہے اور آج اپنی ساکھ مزید متاثر کی ہے، لوگوں کا اعتماد مزید اٹھ گیا ہے، وہ محسوس کررہے ہیں اور ان کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا ہے کہ ان کا پردہ پوشی یا کور اپ کرنے کا کوئی ارادہ ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ایک جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں یا ان کی صوابدید پر تشکیل پائے اور وہ جوڈیشل کمیشن اوپن سماعت کے ذریعے معاملات کی چھان بین کرے اور حقائق کی تہہ تک پہنچے یہ یہ سازش تھی یا نہیں، سیاسی مداخلت تھی یا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب قوم اس میں دلچپسی رکھتی ہے، اس کمیشن کے لیے ہم نے سپریم کورٹ کی خدمت میں وہ مراسلہ بھیجا، اسپیکر اسد قیصر نے سیلڈ مراسلہ بھیجا جو ان کے پاس موجود ہے، وہ ان کا مطالعہ بھی کرسکتے ہیں اور از خود نوٹس بھی لیتے کمیشن قائم کرسکتے ہیں، یہ ان کا اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ قوم کو صحیح آگاہ کرنا چاہتے ہیں تحریک انصاف چند سوالات پیش کرنا چاہتی ہے، اگر ان سوالات پر غور کیا جائے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دستاویز پاکستان کے نمائندے کی غیرملکی نمائندے سے معمول کی ملاقات کی تفصیلات پر مبنی معمول کا مراسلہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹ خاص طور پر عمران خان کی حکومت کی برطرفی پاکستان کو معاف کرنے کی شرط سے نہیں جوڑا گیا۔
سابق وزیرخارجہ نے کہا کہ کیا یہ دھمکی نہیں دی گئی ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت بچ جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں تنہائی اور نتائج ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ کیا سلامتی قومتی کمیٹی نے اس کو پاکستان کے معاملات میں قرار نہیں دیا اور فیصلہ نہیں کیا کہ فوری طور پر ڈیمارش کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے وزیراعظم نے اس ملاقات کے منٹس کو منظور کردیا تو اس سے ہمارا مؤقف پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ کیا سلامتی کمیٹی نے نہیں کہا تھا کہ مواد قومی اسمبلی کی سلامتی کمیٹی میں زیر بحث لانے کے لیے کافی ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مذکورہ پوائنٹس کے نتائج وضع کرنے کے لیے انکوائری کی جائے گی اور اس دستاویز میں ایکٹرز اور دھمکی کے درمیان تعلق کی تفتیش کی جائے جو اس دستاویز میں دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مخصوص ملک کے سفارت کار سے اپوزیشن اور پی ٹی آئی کے منحرفین کے درمیان گزشتہ مہینوں سے ہونے والی ملاقاتوں کے ڈیٹا کے پیٹرن کی نشان دہی کی ضرورت ہوگی، اس طرح کا ڈیٹا ریکارڈ پر ہے اور کیااس طرح کی ملاقاتوں کا ڈیٹا بیرون ملک بھی موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ انکوائری باڈی سلامتی کمیٹی کے مختلف اراکین کی جانب سے اٹھائے گئے سوالوں کی تحقیقات کے بعد نتائج اخذ کرے گی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج کی کمیٹی نے پچھلی کمیٹی کے منٹس کی توثیق کردی اور پچھلی کمیٹی میں ان کا جو مشاہدہ تھا، ان کی بنیاد پر منٹنگ کی گئی تو اس سے تحریک انصاف کا مؤقف اور مطالبہ پہلے سے زیادہ زور پکڑ گیا ہے اور پہلے سے زیادہ تقویت حاصل کرلی ہے۔
قبل ازیں وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا 38واں اجلاس ہوا، اجلاس میں امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر بریفنگ دی تھی۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے موصول ہونے والے ٹیلی گرام پر تبادلہ خیال کیا، امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر نے اپنے ٹیلی گرام کے سیاق و سباق اور مواد کے بارے میں کمیٹی کو آگاہ کیا۔
اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلے کے مواد کا جائزہ لیا اور کمیٹی کے آخری اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کی۔
وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کو اعلیٰ ترین سیکیورٹی ایجنسیوں نے دوبارہ مطلع کیا ہے کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
اجلاس کے دوران قومی سلامتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی ہے۔
کیبل گیٹ
جب سے عمران خان کو اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے معزول کیا ہے اس وقت سے عمران خان شہباز حکومت کو ‘امپورٹڈ’ قرار دیتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیر ملکی سازش کا حصہ ہے، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے ان کے خلاف باضابطہ طور پر تحریک عدم اعتماد دائر کرنے سے ایک دن قبل 7 مارچ کو سفیر سے موصول ہونے والی کیبل اس سازش کا ثبوت ہے۔
یہ مراسلے کا معاملہ پہلی بار عمران خان نے 27 مارچ کو ایک عوامی ریلی میں عوامی سطح پر اٹھایا تھا۔
یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں آج قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، میں الزامات نہیں لگا رہا، میرے پاس جو خط ہے، یہ ثبوت ہے اور میں آج یہ سب کے سامنے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی شک کر رہا ہے، میں ان کو دعوت دوں گا کہ آف دا ریکارڈ بات کریں گے اور آپ خود دیکھ سکیں گے کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب کے سامنے دل کھول کر کہہ رہا ہوں، بیرونی سازش پر ایسی کئی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی، قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ لندن میں بیٹھا ہوا کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے کے اوپر چل رہے ہیں۔
تاہم وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر اپنی جیب سے خط نکالا، عوام کے سامنے لہرایا اور پڑھے بغیر واپس رکھ لیا تھا۔
حیرت انگیز طور پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کسی بھی خط کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
اس کے چند روز بعد 3 اپریل کو عمران خان نے کہا تھا کہ مراسلے میں امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا امور ڈونلڈ لو کے ساتھ پاکستان کے سفیر کی ملاقات کی تفصیلات موجود ہیں جس میں امریکی عہدیدار نے مبینہ طور پر پاکستان کو دھمکی دی تھی۔
اسد مجید نے مراسلے میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ ڈونلڈ لو نے متنبہ کیا تھا کہ عمران خان کے بطور وزیراعظم برقرار رہنے سے دو طرفہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، عمران خان نے دعوی کیا تھا کہ امریکا ان کی ‘آزاد خارجہ پالیسی’ اور دورہ ماسکو سے ناراض تھا۔
عمران خان نے گزشتہ روز لاہور میں پارٹی کے جلسہ عام میں پوری قوم سے ’حقیقی‘ آزادی اور جمہوریت کے حصول کے لیے ملک گیر تحریک کے لیے تیار رہنے کی اپیل کی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں صرف پی ٹی آئی کو نہیں بلکہ پورے پاکستان کو کال کر رہا ہوں، آپ سب کو گلیوں، شہروں اور دیہاتوں میں تیاری کرنی ہوگی، آپ کو میری کال کا انتظار کرنا ہوگا جب میں آپ سب کو اسلام آباد بلاؤں گا۔