‘فضائی آلودگی’ ہر سال ایک لاکھ 28 ہزار پاکستانیوں کے لیے جان لیوا ثابت

پاکستان میں فضائی آلودگی اور اس سے متعلقہ بیماریوں کے نتیجے میں ہر سال کم از کم ایک لاکھ 28 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ ہولناک انکشاف ماحولیاتی تبدیلیوں کے مہلک اثرات کو کم کرنے کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ‘فیئر فنانس’ پاکستان کی جانب سے صاف ہوا کے عالمی دن کے موقع پر کیا ہے۔

چین اور بھارت کے ساتھ پاکستان فضائی آلودگی کے باعث سب سے زیادہ اموات کا شکار ہونے والا ملک ہے جب کہ ملک بھر میں لاکھوں لوگ ایسی ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں جس میں آلودگی اور خطرناک ذرات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔

این جی او نے عوام میں فضائی آلودگی سے متعلق شعور و آگاہی بڑھانے اور ملک میں ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے آن لائن ایک مہم بھی شروع کی۔ پاکستان میں این جی او کے سربراہ عاصم جعفری کا کہنا ہے کہ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں کاروباری ماڈل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کاروباری آپریشنز ذمہ داری کو بروئے کار لاتے ہوئے صفر کاربن فوٹ پرنٹس کو یقینی بنانے، انسانی زندگی اور کرہ ارض کی ماحولیات کی حفاظت کے لیے یقینی بنایا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عالمی سطح پر منائے جانے والے ‘کلین ایئر ڈے’ کا مقصد صحت، انسانی معیشتوں کے لیے صاف ہوا کی اہمیت کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دن کو منانے کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی جیسے دیگر ماحولیاتی اور ترقیاتی چیلنجوں کے ساتھ ہوا کے معیار کے قریبی تعلق کو ظاہر کرنا ہے۔

یہاں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ ورلڈ ایئر کوالٹی انڈیکس 2021 میں پاکستان کو دنیا کا تیسرا آلودہ ترین ملک قرار دیا گیا ہےجب کہ اس کے بڑے شہر خاص طور پر لاہور باقاعدگی سے دنیا کے زہریلے ترین شہروں میں شامل ہیں۔

این جی او کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کا آپس میں گہرا تعلق ہے جب کہ آلودگی کے تمام بڑے عوامل آب و ہوا پر اثرانداز ہوتے ہیں، ماحولیاتی بحران کے فرنٹ لائن پر موجود ممالک میں سے ایک ملک کے طور پر پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں ناکامی کے سنگین نتائج کا سامنا ہے، ان خطرناک نتائج کے باعث ملک میں درجہ حرارت میں شدت، خشک سالی اور سیلاب جیسے متواتر منفی موسمی حالات درپیش ہو رہے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیوں اور فضائی آلودگی سے متعلق شعور اجاگر کرنے والی ٹوئٹر مہم پالیسی حلقوں، تجارتی بینکوں، کاروباری اداروں اور سول سوسائٹی سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ملک میں ذمہ دارانہ سرمایہ کاری کو فروغ دیں، پائیدار ٹرانسپورٹ کو فروغ دیں، قابل تجدید توانائی، فصلوں اور فضلہ کے انتظام کی جانب متوجہ اور منتقل ہوں، فضائی آلودگی پر نظر رکھیں، متعلقہ قوانین پر عمل درآمد کریں اور گاڑیوں، پاور پلانٹس، تعمیرات اور صنعتوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم کرنے کے لیے قابل اعتماد منصوبے فراہم کریں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا کی 99 فیصد آبادی آلودہ ہوا میں سانس لے رہی ہے۔

فضائی آلودگی کی وجہ سے ہر سال 70 لاکھ افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں جن میں سے 90 فیصد وہ لوگ ہیں جو کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے کے تخمینے کے مطابق فضائی آلودگی اور شدید گرمی کا شکار ہونے لوگوں میں موت کا خطرہ 20 فیصد زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ گندی، آلودہ ہوا غریبوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے، اس کے مہلک اثرات خاص طور پر خواتین، بچے اور بوڑھے شہریوں کو سب سے متاثر کرتے ہیں، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق غیر محفوظ فضائی آلودگی کا شکار ہر 10 میں سے ایک شخص انتہائی غربت میں زندگی گزارتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں