عمران ریاض کی گرفتاری پر سینیٹ کمیٹیوں کا نوٹس، رپورٹ طلب

سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں نے صحافی اور یوٹیوبر عمران ریاض خان کی گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت انسانی حقوق سے 24 گھنٹے میں تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔

رپورٹ کے مطابق میڈیا کی شہ سرخیوں میں صحافی کی حراست کی خبریں چلنے کے دوران ایوان بالا کی 2 قائمہ کمیٹیوں کے سربراہوں نے ٹی وی اینکر عمران ریاض خان کی گرفتاری کا نوٹس لیا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین سینیٹر ولید اقبال نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری وزارت انسانی حقوق سے 24 گھنٹے میں رپورٹ طلب کی۔

ایک خط میں سینیٹر ولید اقبال نے سیکریٹری وزارت انسانی حقوق سے کہا کہ وہ عمران ریاض کی گرفتاری کی وجوہات اور بنیادی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کے بارے میں تفصیلات اور یہ بتائیں کہ کیا یہ اقدام صحافیوں اور میڈیا کے تحفظ کی دفعات کی روح کے خلاف نہیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ رپورٹ موصول ہونے کے بعد کمیٹی کا اجلاس منعقد کیا جائے گا۔دوسری جانب قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر محسن عزیز نے بھی گرفتاری کا نوٹس لیا اور کہا کہ وہ پولیس کی کارروائی کی تحقیقات کے لیے اجلاس کریں گے اور اسلام آباد اور پنجاب پولیس کے سربراہان سے عمران ریاض خان کی جانب سے پولیس پر ہراساں کرنے کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات اور خدشات سے متعلق بات کریں گے۔قبل ازیں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے ٹی وی اینکر اور یوٹیوبر عمران ریاض خان کے ریمانڈ کا معاملہ جوڈیشل مجسٹریٹ اٹک کو واپس بھیج دیا تھا جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار کے معاملے پر عمران ریاض کی توہین عدالت کی درخواست نمٹا دی تھی۔

عمران ریاض کے خلاف مقدمات تعزیرات پاکستان کی دفعہ 505-1(سی)، 505-2 ,501، 109 اور الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کی روک تھام کی دفعہ 4، 5، 11، 16، 20 اور 22 کے تحت درج کیے گئے ہیں۔

انہیں 5 جولائی کو اسلام آباد ٹول پلازہ کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا جب وہ قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواستوں کی سماعت کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہونے کے لیے وفاقی دارالحکومت جا رہے تھے۔

گرفتاری کے فوراً بعد ان کے وکیل نے منگل کی رات دیر گئے اسلام ہائی کورٹ کے سامنے توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔

اس کے علاوہ، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ایک پریس کے دوران کہا کہ حکومت اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کے خلاف ہے لیکن اظہار رائے کی آزادی بغیر کسی ثبوت کے الزامات لگانے کا لائسنس فراہم نہیں کرتی۔

انہوں نے کہا کہ کیا آپ کرائے کے صحافی ہیں کہ آپ نے بغیر تصدیق کے ہمارے خلاف الزامات لگانا اور حملے کرنا شروع کر دیے؟ ان حملوں سے آپ کیا فوائد حاصل کر رہے تھے؟ انہوں نے صحافی برادری سے بھی اس طرح کے رویے کا نوٹس لینے پر زور دیا۔

بعدازاں اٹک میں گرفتار صحافی کو سول جج یاسر تنویر کی عدالت میں پیش کیا گیا، اس دوران انہیں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں جب کہ ان کے وکلا نے دلائل کے لیے کچھ وقت طلب کیا، درخواست کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے سماعت 2 بجے تک ملتوی کر دی۔

اس موقع پر پی ٹی آئی کے ایم این اے طاہر صادق بھی کمرہ عدالت کے اندر موجود تھے جب کہ سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

وقفے کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ریاستی وکیل اور ملزم کے وکیل میاں علی اشفاق کے درمیان دلائل کا تبادلہ ہوا، وکیل صفائی نے مقدمے کے شکایت کنندہ ملک مرید عباس کی عدم حاضری پر جرح کی، جج کی جانب سے شکایت کنندہ کی موجودگی سے متعلق پوچھنے پر پراسیکیوٹر نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

اس دوران وکیل استغاثہ جج کو مطمئن کرنے میں بھی ناکام رہے جب پوچھا گیا کہ یوٹیوبر نے اداروں کے خلاف کون سے نا زیبا کلمات ادا کیے اور ان الفاظ کی ادائیگی پر متعلقہ ادارے نے ان کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج نہیں کرائی۔

عدالت نے اپنے حکم میں پولیس کو ہدایت کی کہ وہ ملزم کو ایف آئی اے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرے کیونکہ ان کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت بھی مقدمات درج کیے گئے ہیں جو کہ اٹک سول کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔

عمران ریاض کے وکیل نے بعد میں صحافیوں کو بتایا کہ کارروائی راولپنڈی کی ایف آئی اے عدالت میں چلائی جائے گی۔

تاہم ایف آئی اے میجسٹریٹ پرویز خان نے ملزم کے ریمانڈ کا معاملہ جوڈیشل مجسٹریٹ اٹک کو اس آبزرویشن کے ساتھ واپس کر دیا کہ یہ کیس پیکا کے دائرہ کار میں نہیں آتا لہٰذا عمران ریاض کو اس مجاز عدالت میں پیش کیا جائے جس کے دائرہ اختیار میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی اور پولیس کو جوڈیشل مجسٹریٹ اٹک کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کی۔

دوسری جانب، اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی اور اینکر عمران ریاض کی گرفتاری کے خلاف درخواست میں چیف جسٹس نے کہا تھاکہ ہر عدالت کا اپنا دائرہ اختیار ہے، لاہور ہائی کورٹ اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے، عمران ریاض خان کی گرفتاری اٹک میں ہوئی جو اس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں بنتا، یہ کورٹ پنجاب کی تفتیش تو نہیں کر سکتی۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ اسلام آباد پولیس نے عمران ریاض خان کی گرفتاری نہیں کی، پنجاب پولیس نے کی ہے، ہم اس کیس میں کوئی آبزرویشن نہیں دے رہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ کہے کہ اسلام آباد سے گرفتاری ہوئی ہے تو وہ آرڈر اس عدالت کے سامنے لے آیئے گا۔

ادھر انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس معاملے پر ایک ٹوئٹ کیا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل صحافی عمران ریاض خان کی گرفتاری کی خبر پر پریشان ہے اور حکام سے اختلافی آوازوں کو دبانے اور سزا دینے کے اقدام سے باز رہنے کی اپیل کرتی ہے۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) اور اس کی پاکستان سے ملحقہ تنظیم، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے بھی حکومت پر زور دیا کہ وہ صحافی کے خلاف مقدمات واپس لے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں