طالبان کی جانب سے امریکی کانگریس کے نام ایک کھلے خط میں افغان عوام اور ملک کو درپیش معاشی بحران سے پیدا مشکلات کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ خط طالبان حکومت کے وزیر خارجہ کے دستخط سے جاری کیا گیا۔امریکی کانگریس کے نام اس کھلے خط میں افغانستان پر طالبان کی قیادت میں قائم حکومت کی جانب سے واضح کیا گیا کہ ان کے ملک کو انسانی اور معاشی بحرانوں کا سامنا ہے اور یہ شدید سے شدید تر ہو رہے ہیں۔ طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اس خط میں ان بحرانوں کی ایک بنیادی وجہ افغان سینٹرل بینک کے اثاثوں کو منجمد کرنا قرار دیا ہے۔
اثاثے بحال کرنے کا مطالبہ
اس کھلے خط میں واضح کیا گیا کہ ملکی عوام کو جس بنیادی چیلنج کا سامنا ہے، وہ مالیاتی تحفظ سے ہے۔
دوسری جانب طالبان حکومت کی جانب سے پہلے بھی تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ اگر مالیاتی مسائل اسی انداز میں جاری رہے تو سماجی پریشانیاں کے دوگنا ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ ان پریشانیوں میں تسلسل کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افغان شہریوں کی دوسرے ملکوں کی جانب مہاجرت یقینی ہے۔
افغان عوام کی پریشانیاں
افغانستان میں قائم طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنے خط میں افغان عوام کی شدید مشکلات اور پریشانیوں کو اجاگر کیا۔ افغان وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ مالیاتی مسائل سے ملک کے صحت اور تعلیم کے شعبوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی بیان کیا کہ افغان بچوں کو کم خوراکی کا سامنا ہے اور خواتین ناکافی طبی سہولیات کی وجہ سے دم توڑ رہی ہیں۔
متقی نے تحریر کیا کہ افغان عوام کو لاحق پریشانیوں میں خوراک، شیلٹر، ادویات اور بنیادی ضروریات ہیں اور دوسری جانب ان لوگوں کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ متقی کے مطابق اثاثوں کو منجمد کرنے کی سیاسی یا منطقی وجوہات موجود نہیں ہیں۔ امیر خان متقی نے اپنے ملک میں پیدا اس ساری صورت حال کو انسانی معاملہ قرار دیا ہے۔
جاری امداد روک دی گئی
رواں برس اگست میں افغانستان کے طول و عرض پر طالبان عسکری تحریک نے کنٹرول حاصل کر کے حکومت قائم کی۔ اس حکومت کے قیام پر واشنگٹن حکومت نے افغان سینٹرل بینک کے امریکا میں موجود قریب نو ارب ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کر دیا تھا۔ان اثاثوں کے منجمد کیے جانے سے قبل کابل میں مغرب کی حمایت یافتہ حکومت کو ساڑھے آٹھ بلین کی امداد سالانہ بنیاد پر فوجی اور سویلین مد میں دی جاتی تھی۔ اسی امداد سے پچھتر فیصد حکومتی اخراجات بشمول ملازمین کی تنخواہوں کو پورا کیا جاتا تھا۔
طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد لاکھوں افغان عوام کی بنیادی آمدن کا ذریعہ ختم ہو کر رہ گیا۔ اس کے علاوہ تعلیم، صحت اور پبلک سروسز کے شعبے بھی فعال نہیں رہے۔
ان گھمبیر مسائل کے تناظر میں اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ افغانستان کی معاشی و سماجی مسائل میں تسلسل رہا تو سن 2022 کے وسط تک ستانوے فیصد افغان شہریوں کو شدید غربت اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔