وفاقی حکومت نے رات گئے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو وزیراعظم کے مشورے پر عہدے سے برطرف کردیا۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت کا مصروف ترین دن کابینہ ڈویژن کے اعلامیے پر اختتام پذیر ہوا، قبل ازیں صدر کی جانب سے گورنر کو پنجاب کو عہدے سے ہٹانے سے متعلق تجویز مسترد کردی گئی تھی، جس نے ایک یا دو روز میں گورنر کا عہدہ خالی ہونے سے متعلق مسلم لیگ (ن) کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آرٹیکل 101 (3) کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم کی سمری مستری کردی تھی۔
مذکورہ آرٹیکل کے مطابق گورنر صدر کی ’مرضی‘ سے اس وقت تک عہدے پر برقرار رہ سکتا ہے جب تک صدر اسےنہ ہٹائے۔
پی ٹی آئی کا ماننا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 48 (2) کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل 101 (3) کے لحاظ سے واضح ہے کہ ’صدر کسی بھی معاملے میں اپنی صوابدید پر کام کرے گا، آئین نے اسے ایسا کرنے کا اختیار دیا ہے‘۔
گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے بھی آرٹیکل 101 (3) اور 48 (2) کا سہارا لیا، وہ مذکورہ آرٹیکلز کا حوالہ متعدد ٹوئٹس میں دے چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے مشورے پر خود کار عمل درآمد گورنر کو عہدے سے ہٹانے کے بجائے، صدر کے معاملے پر کارروائی کے لیے مقررہ مدت ختم ہونے کے بعد ہوتا ہے۔
قبل ازیں مسلم لیگ (ن) کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے گورنر چیمہ کو مشورہ دیا تھا کہ گورنر باعزت طور پر گھر چلے جائیں اور صدر عارف علوی اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ کسی بھی ایسی سرگرمی میں حصہ نہ لیں جو آئندہ دنوں میں عوامی غصے کا باعث بنے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’صدر وزیر اعظم کے مشورے پر عمل درآمد کے پابند ہیں اور کوئی بھی انحراف آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا‘۔راناثنا اللہ نے کہا تھا کہ عارف علوی اور عمر چیمہ کو سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل پیرا ہونا چاہیے، جس میں کہا گیا ہے کہ صدر کے پاس کوئی ’موروثی‘ یا ’ لافانی‘ اختیارات نہیں ہیں۔حکومت کے عمل کو حملہ محسوس کرتے ہوئے گورنر چیمہ نے ٹوئٹ کیا کہ ’سسلین مافیا‘ نے گورنر ہاؤس کو یرغمال بنا رکھا ہے اور وہ ’غیر آئینی سمریوں اور نوٹیفکیشنز کے ساتھ عہدے پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں‘۔
وفاقی حکومت کے نوٹیفکیشن میں یہ بھی بتایا گیا کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر آئین کے آرٹیکل 104 کے مطابق موجودہ گورنر کے تقرر تک قائم مقام گورنر کے فرائض سرانجام دیں گے۔
اس پیش رفت سے نہ صرف گورنر ہاؤس بلکہ پنجاب اسمبلی کی صورتحال بھی بدل جائے گی کیونکہ اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی کو قائم مقام گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑے گا جبکہ ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کا جھکاؤ مسلم لیگ (ن) کی طرف ہے۔
خیال رہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر دونوں کو ایوان میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے۔
گزشتہ روز صدر کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری کردہ ٹوئٹ میں کہا گیا تھاکہ ’صدر نے وزیر اعظم پاکستان کو آگاہ کیا ہے کہ گورنر پنجاب کو ان کی منظوری کے بغیر نہیں ہٹایا جا سکتا‘۔
اپنے نوٹ میں وزیر اعظم کے مشورے کو مسترد کرتے ہوئے صدر نے لکھا تھا کہ موجودہ گورنر کو نہیں ہٹایا جا سکتا کیونکہ ان پر بدانتظامی کا کوئی الزام ہے نہ ہی کسی عدالت کی طرف سے انہیں سزا دی گئی ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے آئین کے منافی کسی کام کا ارتکاب کیا گیا ہے۔
صدر مملکت نے کہا تھا کہ ’بطور سربراہ مملکت میرا فرض ہے کہ میں آئین کے آرٹیکل 41 کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اتحاد کی نمائندگی کروں‘۔
جیسے جیسے پی ٹی آئی کے مقرر کردہ گورنر کی برطرفی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تاخیر ہوتی جارہی تھی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت میں ہلچل بڑھ رہی تھی، کیونکہ انہیں صوبائی کابینہ کی تشکیل میں ناکامی کا سامنا ہے۔
حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سے مسلم لیگ (ن) کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کر رہی ہے، انہیں خدشہ ہے کہ گورنر عمر سرفراز چیمہ صوبائی وزرا سے حلف نہیں لیں گے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل گورنر نے لاہور ہائی کورٹ کے مشورے کے خلاف حمزہ شہباز کا حلف لینے سے بھی انکار کر دیا تھا، جس کے بعد عدالت عالیہ نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ہدایت کی تھی کہ وہ حمزہ شہباز سے حلف لیں۔
صدر نے وزیراعظم کو لکھے گئے اپنے نوٹ میں گورنر کے آئینی کردار پر بھی روشنی ڈالی، جس میں کہا گیا کہ عمر چیمہ نے انہیں پنجاب اسمبلی میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات، سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے استعفیٰ کی صداقت اور پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی وفاداریاں تبدیل ہونے کے حوالے سے رپورٹ بھیجی تھی۔
وزیراعظم شہباز شریف کے مشورے کو مسترد کرتے ہوئے صدر علوی نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ گورنر کو ہٹانا غیر منصفانہ اور انصاف کے اصولوں کے خلاف ہوگا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ ضروری ہے کہ موجودہ گورنر ایک صحت مند اور صاف جمہوری نظام کی حوصلہ افزائی کرے جہاں غیر قانونی تبدیلی لانے کے لیے اراکین سے زبردستی کی جاسکتی ہے نہ ہی انہیں خریدا نہیں جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے خاص طور پر ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
صدر نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ وہ اس مشکل وقت میں آئین کی دفعات کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے پرعزم ہیں اور گورنر پنجاب کو ہٹانے کے حوالے سے وزیر اعظم کے مشورے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔
گورنر پنجاب کو ’حملے‘ کا خدشہ
دریں اثنا، وزیر داخلہ ثنا اللہ کے انتباہ کے بعد گورنر چیمہ نے ٹوئٹر پر اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’سسیلین مافیا‘ غیر آئینی سمریوں اور نوٹی فکیشنز کے ساتھ ان کے دفتر پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
بعد میں رات گئے ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’اٹارنی جنرل اور وزیر داخلہ کے دھمکی آمیز اور اشتعال انگیز بیانات خانہ جنگی کا باعث بن سکتے ہیں، دونوں نے ثابت کر دیا کہ وہ درباری اور رائے ونڈ محل کے ٹھگ ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب گورنر ہاؤس کو یرغمال بنایا گیا تھا تو حالات پر قابو پالیا تھا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان پر دوبارہ حملہ کیا گیا تو نتیجہ مختلف ہوگا اور خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے۔عمر چیمہ نے مزید کہا کہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ، اٹارنی جنرل اور پنجاب کے ’غیر آئینی‘ وزیر اعلیٰ ان حالات کے ذمہ دار ہوں گے۔