صحافیوں کی عالمی تنظیم کا بھارت سے کشمیری صحافی کی رہائی کا مطالبہ

امریکا میں قائم صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) نے بھارت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف مظاہرے کی ویڈیو بنانے والے زیر حراست صحافی کو رہا کرنے کا مطالبہ کردیا۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق سی پی جے نے کہا کہ ایک آزاد صحافی اور میڈیا کا طالب علم سجاد گل کی گرفتاری ہے ‘شدید بے چینی ہے’، جن کے بارے میں رپورٹس ہیں کہ انہیں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا کہ ‘حکام صحافی سجاد گل کو فوری طور پر رہا کریں اور ان کے صحافتی کام سے متعلق تفتیش واپس لی جائے’۔

خیال رہے کہ بھارتی فوجیوں نے صحافی سجاد گل کو مقبوضہ خطے کے شمال مشرقی گاؤں شہگنڈ میں ان کے گھر سے بدھ کی رات کو گرفتار کرلیا تھا اور بعد ازاں انہیں پولیس کے حوالے سے کردیا تھا۔

اس سے قبل انہوں نے پیر کو حریت پسند کے قتل کے خلاف ان کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے احتجاج کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی۔

ابتدائی طور پر پولیس نے کہا تھا کہ انہیں رہا کردیا جائے گا لیکن گزشتہ روز ان کے گھر والوں کو بتادیا گیا کہ ان کے خلاف سازش کرنے اور قومی استحکام کے خلاف کام کرنے کے الزامات کے تحت باقاعدہ مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

انہیں بتایا گیا کہ اگر وہ مجرم پائے گئے تو انہیں عمر قید یا سزائے موت ہوسکتی ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافی مسلسل پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی شکایات کررہے ہیں اور جب سے 2019 میں بھارتی سرکار نے مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت ختم کرکے خطے کو حصوں میں تقسیم کیے جانے کے بعد صحافیوں کو کام کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔

بھارتی فورسز کئی صحافیوں کو گرفتار کرچکی ہے، دیگر پر تشدد اور چند صحافیوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت تفتیش کی جارہی ہے۔

مقبوضہ جموں کشمیر میں صحافیوں کی منتخب باڈی کشمیر پریس کلب بھی بھارتی حکومت پر مسلسل زور دیتا آرہا ہے کہ صحافیوں کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے۔

کشمیر پریس کا کہنا ہے کہ صحافیوں پر سیکیورٹی ایجنسیاں حملے کرتی ہیں، دھمکیاں اور ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے طلب کرتی ہیں۔

یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی جس کے بعد کئی مہینوں تک مقبوضہ کشمیر میں صحافت تقریباً معطل ہوگئی تھی۔

بھارت نے 2020 میں نئی پالیسی نافذ کی جس کےتحت حکومت کو صحافت پر قدغنیں لگانے کے لیے مزید اختیارات تفویض کردیے گئے ہیں۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں خوف سائے میں مقامی صحافت انتہائی دباؤ کا شکار ہے کیونکہ صحافیوں کو آن لائن دھمکیوں سمیت مختلف قسم کے حربوں کا سامنا ہے اور حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ وہ علیحدگی پسندوں کی حمایت کرت رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں