سیکڈ ایمپلائز ایکٹ 2010 کالعدم قرار، سپریم کورٹ نے ہزاروں سرکاری ملازمین کو بحال کردیا

سپریم کورٹ نے سیکڈ ایمپلائز ایکٹ 2010 کے ذریعے بحال ہونے والے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواستوں پر فیصلہ جاری کردیا۔

جمعے کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے محفوظ شدہ فیصلہ پڑھ کر سنایا اور بعد ازاں 8 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ جاری کیا گیا جو جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ ،جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس قاضی امین احمد اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ 1-4 کی اکثریت سے جاری کیا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ 

تحریری فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے ایکٹ 2010 کے ذریعے بحال ہونے والے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواستیں خارج کرتے ہوئے تحریری فیصلے میں قرار دیا ہے کہ سیکڈ ایمپلائز ایکٹ 2010 آئین کے آرٹیکل 4، 9، 18 اور 25 سے متصادم ہے، سیکڈ ایمپلائز ایکٹ آرٹیکل 8 کے تحت کالعدم ہے،  آئین کے آرٹیکل3 /184 جسے آرٹیکل 187 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے۔

تحریری فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ یکم نومبر 1996 سے 12 اکتوبر 1999 تک برطرف کیے گئے ایسے ملازمین جن کی تعیناتی کیلئے کسی استعداد، تعلیمی قابلیت یا مہارت کا امتحان درکار نہیں تھا کو نظرثانی فیصلے کے دن سے ان پوسٹوں پر ان شرائط کے ساتھ بحال کیا جاتا ہے جس پر وہ ابتدائی برطرفی کے وقت تعینات تھے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یکم نومبر 1996 سے 12 اکتوبر 1999 تک برطرف کیے گئے ایسے دیگر ملازمین جن پر تعیناتی کلئے کسی استعداد، تعلیمی قابلیت یا مہارت کا امتحان درکار تھا، کو نظرثانی فیصلے کے دن سے ان پوسٹوں پراپنی ابتدائی برطرفی کی تاریخ پر تعیناتی کیلئے ملازمت کیلئے لاگو انہی شرائط پر بحال ہوں گے۔

فیصلے کے مطابق تمام بحال شدہ ملازمین کی ملازمت کی شرائط میں کوئی بہتری ان کی ملازمت کیلئے لاگو قوانین اور قواعد اور عدم موجودگی میں متعلقہ آجروں کیلئے اس مقصد کیلئے مقرر کردہ ضوابط کے مطابق سختی سے عمل درآمد کرتے ہوئےلائی جائے گی۔

مذکورہ ریلیف یکم نومبر 1996 سے 12 اکتوبر 1999 تک برطرف کیے گئے ایسے ملازمین پر لاگو نہیں ہو گا جنہیں ڈیوٹی سے غیر حاضری ، مس کنڈکٹ،کرپشن اورمالی خورد برد یا طبی بنیادوں پر ملازمت کیلئے غیر موزوں قرار دے کر برطرف کیا گیا۔

عدالت کا کہنا تھاکہ کیس کا تفصیلی فیصلہ اور وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

فیصلہ پڑھنے کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور کیس میں فریق ملازمین کے وکلا کا عدالتی معاونت پر شکریہ ادا کیا اور اٹارنی جنرل کو برطرف ملازمین کا مکمل ڈیٹا فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں