‘سیاسی غیر یقینی ایندھن پر دی گئی سبسڈی کے نقصان کو بڑھا رہی ہے’

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے آخری ہفتوں میں کار مالکان کے لیے فراخدلی کا جو عمل شروع ہوا تھا وہ اب قومی خزانے پر بڑے پیمانے پر مصیبت میں بدل گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ادھار کی رقم کا چشمہ خشک ہونے کو ہے، اس کے باوجود اتحادی حکومت اب بھی ایندھن اور بجلی کی سبسڈی کو واپس لینے میں تاخیر کررہی ہے جو گزشتہ حکومت نے فروری میں شروع کی تھی۔

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ تمام سبسڈیز ختم کرنا ہی بہتر ہے مگر بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ وزیر خزانہ ایسا کرنے سے قبل تمام دیگر آپشنز بھی آزمانہ چاہتے ہیں۔

اپنی حکومت ختم ہونے سے چند روز قبل تقریباً 50 ارب روپے بھاری بھرکم ہینڈ آؤٹ کا اعلان اس بات کی پہلی علامت تھی کہ پی ٹی آئی آسانی سے شکست نہیں کھائے گی۔

اتحادی حکومت اس وقت پیٹرول کے ہر لیٹر پر 31 روپے اور ڈیزل پر 73 روپے کی سبسڈی دے رہی ہے جو بجلی کے ہر یونٹ پر 5 روپے کی سبسڈی کے علاوہ ہے۔

وزیر خزانہ کے مطابق صرف رواں ماہ کے لیے سبسڈی کا مالی بوجھ 102 ارب روپے تک ہے جبکہ سویلین حکومت کو چلانے کی ماہانہ لاگت 45 ارب روپے ہے۔

ایک حالیہ انٹرویو میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اصرار کیا تھا کہ 4 سو 66 ارب روپے کا پیکج ‘مکمل طور پر فنڈڈ’ تھا یعنی پیسہ عوامی آمدن کے طے شدہ ذرائع سے نکلنا تھا اور یہ سبسڈیز مالیاتی خسارے میں حصہ نہیں ڈالیں گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ تمام ذرائع موجودہ حکومت کے پاس ابھی بھی بہت زیادہ ہیں جس کا استعمال کرنا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) بھی اس منصوبے میں شامل تھا۔

انہوں نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کو کم کرکے 100 ارب روپے کا بندوبست کرنے اور ان دو صوبوں جہاں پی ٹی آئی کی حکومت تھی یعنی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لیے مختص وفاقی فنڈز سے مزید 140 ارب روپے نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام سے صرف یہ کہا تھا کہ وہ صوبوں اور سرکاری توانائی کمپنیوں سے اس کی باضابطہ تصدیق پیش کرنے کے لیے تھا کہ وہ وفاقی حکومت کے سبسڈی پروگرام کے لیے فنڈز دینے کے لیے تیار ہیں۔

شوکت ترین نے موجودہ حکومت پر 4 کھرب 66 ارب روپے کے سبسڈی بل کو غیر ضروری طور پر مالیاتی خسارے میں شامل کر کے صورتحال الجھانے کا الزام لگایا اور کہا کہ وہ سیاست کر رہے ہیں، وہ صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے ایک بڑا مالیاتی خسارہ چھوڑا ہے۔

ماہر اقتصادیات عمار ایچ خان کے مطابق مالیاتی خسارے والی معیشت میں کوئی سبسڈی ’مکمل طور پر فنڈ‘ نہیں کی جا سکتی، انہوں نے کہا کہ ملک کو ایندھن کی درآمد کے لیے مزید ڈالرز کی ضرورت ہے، چاہے سبسڈی مکمل طور پر مقامی کرنسی میں فراہم کی جائے۔

مسلم لیگ (ن) نے اب تک عمومی سمجھ بوجھ کے بجائے مختصر مدت کے سیاسی فائدے پر توجہ دی ہے، پی ٹی آئی کی مقبول سیاست نے مسلم لیگ ن کی غیر فیصلہ کن صورتحال کو مزید بڑھایا ہے، سابق حکمران جماعت پوسٹ مارٹم مقبولیت حاصل کررہی ہے جبکہ بظاہر اس کی معاشی غلطی مقابلہ بازی میں بدل گئی ہے۔

عمار ایچ خان نے کہا کہ سیاسی طور پر اس طرح کی غلط بیانی طویل مدت میں ملک کو نقصان پہنچاتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں