سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل مقدمات میں تقرر و تبادلوں پر پابندی عائد کردی اور قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ عدالتی فورم سے واپس لینے سے روک دیا۔
حکومتی شخصیات کی جانب سے تحقیقات میں مبینہ مداخلت پر سپریم کورٹ کے لیے گئے ازخودنوٹس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے کی۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، چیئرمین نیب، سیکریٹری داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وضاحت کی جائے کہ کرمنل کیسز میں ‘مداخلت’ کیوں کی جارہی ہے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے تفتیشی افسران اور تبدیل/تعینات ہونے والے افسران کے علاوہ تمام صوبوں کے پراسیکیوٹر جنرل اور ایف آئی اے کے لیگل ڈائریکٹر کو بھی نوٹسز جاری کردیے۔
عدالت نے ہدایت کی کہ آئین کے آرٹیکل 25، 10 (اے) اور 4 کی عملداری ہونی چاہیے، کرمنل جسٹس سسٹم کی شفافیت اور ساکھ برقرار رکھی جائے، عدالتی کارروائی کا مقصد صرف اسی حد تک ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے رات کو لیے گئے ازخود نوٹس پر آج ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل اشتر اوصاف پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پیپر بُک پڑھی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی میں نے پڑھی ہے، پیپر بک میں عدالت کے معزز جج کی جانب سے مداخلت کے بارے میں ذکر ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ ازخود نوٹس لینے کی وجوہات صفحہ نمبر 2 پر موجود ہیں وہ پڑھیں، جس پر اٹارنی جنرل کو ازخود نوٹس کیس کی پیپر بک پڑھنے کے لیے دی گئی۔
‘ہائی پروفائل کیسز میں تبادلے اور تقرریوں پر تشویش ہے’
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لاہور کی احتساب عدالت سے کئی افسران کا تبادلہ کیا گیا، ہائی پروفائل کیسز میں تبادلے اور تقرریوں پر تشویش ہے، اس طرح کیوں ہو رہا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے نے ایک تفتیشی افسر کو پیش ہونے سے منع کیا، پراسیکیوشن برانچ اور پراسیکیوشن کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، پراسیکیوشن کو ہٹانے کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈی جی ایف آئی اے سندھ سے ہیں، اچھا کام کر رہے تھے، خیبر پختونخوا میں بھی ان کی کارکردگی اچھی تھی، ڈی جی ایف آئی اے ثنااللہ عباسی اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ڈاکٹر رضوان کو بھی تبدیل کردیا گیا، ڈاکٹر رضوان کو بعد میں دل کا دورہ پڑا، ان معاملات پر تشویش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اخبار کے تراشوں کے مطابق ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام نکلنے پر ہزاروں افراد کا فائدہ ہوا، ان معاملات کو جاننا چاہتے ہیں، ہم ایسی خبریں ایک ماہ سے دیکھ اور پڑھ رہے ہیں، اس سے قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے۔
‘یہ کارروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا شرمندہ کرنے کیلئے نہیں’
چیف جسٹس نے کہا کہ امن اور اعتماد کو معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت ہماری ذمہ داری ہے، قانون کی حکمرانی برقرار رکھنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا کسی کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ فوجداری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کے لیے ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے نے ان تمام معاملات کی تردید نہیں کی، ایف آئی اے کا مؤقف ہے کہ یہ معمول کے معاملات ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ امید کرتا ہوں کہ وفاقی حکومت ان اقدامات کی وضاحت کرنے میں تعاون کرے گی۔
‘خبروں کے مطابق نیب کا فوجداری ریکارڈ غائب ہے’
انہوں نے کہا کہ اپریل اور مئی میں کئی اخباری خبروں کو پیپر بک میں شامل کیا گیا ہے، خبروں کے مطابق نیب کا فوجداری ریکارڈ غائب ہونا شروع ہوگیا ہے، نیب کے چار مقدمات میں ریکارڈ گم ہونے کی خبر بھی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل ان معاملات میں ہماری مدد کریں، جج کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا چاہیے، ججوں کو بڑا محتاط ہونا چاہیے، ججوں کو قانون کے مطابق فرائض سمجھنے ہیں۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا پیش ہونے نہیں دیا گیا، جسٹس مظاہر نقوی
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت میں تحریری درخواست دی اور عدالت کو بتایا کہ انہیں پیش نہ ہونے کا کہا گیا ہے، پراسیکیوٹر کو کہا گیا کہ جو بندہ وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم بننے والا ہے اس کے مقدمے میں پیش نہ ہو۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس ان تبدیلیوں کی کوئی معقول وجہ ہوگی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بظاہر یہ ٹارگٹڈ تقرر و تبادلے کے گئے، اس پر تشویش ہے اس لیے چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیا، آپ تعاون کریں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے درخواست دینا پڑتی ہے، سیکڑوں افراد کی درخواستیں زیر التوا پڑی رہتی ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا؟
‘تشویش صرف انصاف کی فراہمی کے لیے ہے’
چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری تشویش صرف انصاف کی فراہمی کے لیے ہے، ہم تحقیقاتی عمل کا وقار، عزت اور تکریم برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ پوائنٹ اسکورنگ کے لیے نہیں کر رہے، ہم کسی قسم کی تنقید سے متاثر نہیں ہوں گے، آئین اور اللہ کو جوابدہ ہیں، تعریف کی ضرورت نہیں اور نہ تنقید کا خوف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف انصاف کی فراہمی چاہتے ہیں جو مقدمے کے اندراج سے فیصلے پر ختم ہوتی ہے۔
‘سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل مضبوط ہیں’
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل بہت مضبوط ہیں، ہم خاموش تماشائی بن کر یہ چیزیں نوٹ کرتے رہے، مئی سے یہ اقدامات ہونا شروع ہوئے ہم ان اقدامات کو دیکھتے رہے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مقدمات کے ملزم کو ابھی مجرم قرار نہیں دیا گیا، ملزمان کو عدالت نے سزائیں نہیں سنائیں۔
انہوں نے کہا کہ انصاف کے نظام سے کوئی بھی کھلواڑ نہ کرے، ہم عدالتی کارروائی کا جائزہ لے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ہائی پروفائل کیسز، خصوصی عدالتوں اور نیب کیسز میں تقرر و تبادلوں سے روک دیا۔
انہوں نے کہا کہ لاہور اور کراچی کی خصوصی عدالتیں ججوں سے خالی پڑی ہیں، اسلام آباد کی بھی تین احتساب عدالتیں خالی ہیں۔
‘نیب، ایف آئی اے تاحکم ثانی کوئی مقدمہ واپس نہ لیں’
دوران سماعت سپریم کورٹ نے تاحکم ثانی تقرر و تبادلے سے روک دیا اور نیب اور ایف آئی اے کو تاحکم ثانی کوئی بھی مقدمہ واپس نہ لینے کی ہدایت کی۔
عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے میں افسران کو ہٹانے، تحقیقاتی اور پراسیکیوشن برانچ میں تبدیلیوں پر جواب دیا جائے۔
ساتھ ہی عدالت نے نیب کے تحقیقاتی اور پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ میں بھی تقرر و تبادلوں پر جواب دینے کی ہدایت کی۔
عدالت نے ماضی کے تقرر و تبادلوں پر اٹارنی جنرل کو خود سے جواب دینے کی اجازت دے دی۔
‘تبادلوں پر گزشتہ 6 ماہ کا ریکارڈ فراہم کیا جائے’
سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ نیب، ایف آئی اے کی تحقیقاتی اور پراسیکوشن برانچز میں جس کو تبدیل کیا اس کی جگہ پر کون آیا، گزشتہ 6 ہفتوں کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔
عدالت نے کہا کہ ای سی ایل سے نکالے گئے ناموں کے معاملے پر، مقدمات کی نامکمل دستاویزات کا ریکارڈ محفوظ بنانے کے لیے اقدامات سے آگاہ کیا جائے۔
عدالت نے مزید ہدایت کی کہ ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ ایف آئی اے اور نیب میں چیک کیا جائے اور چیک کرنے کے بعد سیل کیا جائے، ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ چیک کر کے مجاز اتھارٹی کو رپورٹ پیش کریں۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ سیل کرنے سے ٹرائل رک جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ زیر التوا مقدمات کا ریکارڈ سیل نہیں کر رہے ہیں بلکہ پراسیکیوشن کا ریکارڈ سیل کر رہے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے چیئرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اے، سیکریٹری داخلہ کو طلب کرلیا اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرل و پراسیکوٹر جنرلز، سربراہ پراسیکیویشن ایف آئی اے کو بھی نوٹس جاری کر کے تمام افسران کو تحریری جوابات جمع کرانے کی ہدایت کی اور سماعت 27 مئی تک ملتوی کردی۔
پس منظر
خیال رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی شخصیات کی جانب سے زیر التوا مقدمات کی تحقیقات میں مداخلت پر اثر انداز ہونے کے تاثر پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ‘موجودہ حکومت میں موجود افراد سے متعلق زیر التوا کرمنل معاملات کی پروسیکیوشن اور تفتیش کے لیے پروسیکیوشن برانچ کے اختیارات اور فرائض کی ادائیگی میں مداخلت کا خدشہ ہے’۔
سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ‘خدشہ ہے کہ اس طرح کی مداخلت سے مقدمات کی تفتیش، عدالتوں میں شہادتوں میں ردوبدل یا غائب کرنے یا تفتیشی اداروں کے قبضے میں اور اہم عہدوں پر تبادلے اور تعیناتیوں میں اثر انداز ہو سکتے ہیں’۔
ازخود نوٹس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ‘احتساب کے قوانین میں تبدیلی کی اس طرح کی کارروائیوں، میڈیا رپورٹس کے ساتھ ملک میں نظام انصاف کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے’۔
اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ‘یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے جو معاشرے پر بطور مجموعی اثر انداز ہو رہا ہے اور ملک میں عوام کا قانون اور آئین کی بالادستی پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے’۔