سن 2023 کے الیکشن: ایک کروڑ سے زائد خواتین ووٹ دینے سے محروم

سن 2023 کے انتخابات اب زیادہ دور نہیں ہیں لیکن خواتین کی ایک بڑی تعداد کے نام انتخابی فہرست میں درج نہیں ہیں۔ اس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ ایک کروڑ سے زائد خواتین ووٹ نہیں دے سکیں گی۔

لیکشن کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے اکیاسی اضلاع میں خواتین کے رجسٹرڈ ووٹ  مردوں کے مقابلے میں دس فیصد سے بھی زیادہ کم ہے۔ ہارون شنواری کے بقول غربت اور وسائل کی کمی اس کم شرح کی سب سے زیادہ ذمہ دار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ، ”قومی شناختی کارڈ کے بغیر ووٹرز کا اندراج نہیں ہو سکتا اور پسماندہ علاقوں میں شناختی کارڈز کے مراکز دور دور ہیں اور ایک مرکز تک جانے کے لئے تین سے چار روز بھی لگ سکتے ہیں، اس کے علاوہ مردوں کو اپنے کام سے چھٹی کرنی پڑتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اجرت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اس لئے وہ اپنی خواتین کے کارڈز نہیں بنواتے۔‘‘

ہارون شنواری کا مزید کہنا تھا کہ ای سی پی اور نادرہ مل کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لئے نادرہ نے موبائل سروس بھی شروع کی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے شناختی کارڈز بن سکیں۔ ”لیکن یہ ممکن نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں خواتین کا انتخابی فہرست میں سن 2023 تک اندراج کر لیا جائے۔‘‘

اس مناسبت سے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ان اعداد وشمار کا مطلب یہ ہے کہ ایک کروڑ سے زائد خواتین اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کر پائیں گی۔

رپورٹ کے مندرجات

 اس رپورٹ کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 119 ملین ہوگئی ہے لیکن کل 133 میں سے اکیاسی اضلاع ایسے ہیں جہاں مرد اور خواتین کی ووٹر رجسٹریشن میں دس فیصد کا فرق ہے۔ خیبرپختونخوا کے 34 میں سے 28 اضلاع میں خواتین ووٹرز کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کم ہیں۔ پنجاب میں 37 میں سے سترہ، بلوچستان میں 33 اضلاع میں سے 26  اور سندھ کے 29 اضلاع میں سے نو میں یہی صورتحال ہے۔ ملک کے چار اضلاع ایسے بھی ہیں جہاں چالیس فیصد سے بھی کم خواتین الیکٹورل رول پر رجسٹرڈ ہیں۔ ان اضلاع میں بلوچستان سے قلعہ عبداللہ اور کوہلو ہیں جبکہ سابقہ فاٹا سے جنوبی اور شمالی وزیرستان ہیں۔

قانونی اقدامات

الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد  نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے اور سابقہ فاٹا کے علاقوں میں ووٹرز اندراج کے حوالے سے ہمیشہ مسائل رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ قبائلی سرداروں کا جرگہ بلا کر ان سے بات چیت کرے اور ان کو رجسٹریشن کے لئے آمادہ کرے۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ قانونی اقدامات بھی کئے جا سکتے ہیں۔ ”ان علاقوں میں جائیداد کی خرید و فروخت ہوتی ہے اگر یہ شرط لگا دی جائے کہ جب تک خواتین کی ووٹ کی رجسٹریشن نہیں ہوگی اس وقت تک یہ جائیداد کی خرید و فروخت نہیں ہو سکتی تو میرے خیال سے لوگوں کو پھر خواتین کی رجسٹریشن کروانی پڑے گی۔‘‘

ووٹرز کی رجسٹریشن آسان نہیں

تاہم الیکشن کمیشن کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیوکو بتایا کہ یہ رجسٹریشن اتنی آسان نہیں ہے کیونکہ بہت سارے اسٹرکچرل مسائل ہیں، جن کو حل کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، “زیادہ تر ایسے علاقوں میں خواتین کی رجسٹریشن نہیں ہوپاتی جہاں پر لوگ بھیڑ بکریاں چراتے ہیں یا مویشی پالتے ہیں یا انتہائی دور افتادہ علاقوں میں رہتے ہیں، نہ ہی ان کو خرید و فروخت کرنی ہوتی ہے نہ ہی ان افراد کو سرکاری نوکری چاہیے اور نہ ہی یہ تعلیم میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس لئے ان کو قومی شناختی کارڈ کی ضرورت نہیں پڑتی اور جب قومی شناختی کارڈ نہیں ہوگا تو یقینا آپ ووٹ بھی نہیں ڈال سکیں گے۔‘‘

تشویش

کراچی سے تعلق رکھنے والی عورت فاؤنڈیشن کی  ریجنل ڈائریکٹر مہناز رحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “حکومت یا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں ورنہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں اور 2023 کے عام انتخابات میں خواتین اپنے حق کے رائے دہی سے محروم ہو جائیں گی۔‘‘ مہناز رحمان کے بقول اگر ٹھوس اقدامات کیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ کام جلد از جلد نہ ہو۔ “حکومت کو بڑے پیمانے پر آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے۔ سول سوسائٹی اور بین الاقوامی تنظیمیں بھی اس حوالے سے حکومت کی مدد کر سکتی ہیں۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں