لاہور: فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے اپنے سابق سربراہ بشیر میمن کو پی ٹی آئی حکومت کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے کہنے پر شروع کی گئی مختلف تحقیقات میں تمام الزامات سے بری کر دیا۔ رپورٹ کے مطابق منگل کو ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے سیشن عدالت کو بتایا کہ ایجنسی کو تین تحقیقات میں اپنے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔ایف آئی اے کے اعلان پر بشیر میمن نے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست واپس لے لی۔
بشیر میمن پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے اپنے دور میں زیورخ اور اوسلو میں مالی جرائم اور انسانی اسمگلنگ کے مقدمات میں ملزم عمر فاروق ظہور کی سہولت کاری کا الزام تھا۔
منگل کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے بشیر میمن نے کہا کہ انہیں عمران خان اور ان کے مشیر شہزاد اکبر کے کہنے پر پچھلے سال شروع کیے گئے مقدمات میں پھنسایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کیونکہ میں نے ڈی جی ایف آئی اے کی حیثیت سے عمران خان کی اپنے سیاسی مخالفین کے پیچھے پڑنے کی خواہش کو پورا کرنے سے انکار کیا تھا، اس لیے انہوں نے میرے خلاف ذاتی رنجش کو پروان چڑھایا اور وہ جھوٹے مقدمات بنا کر مجھے سبق سکھانا چاہتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہزاد اکبر نے ایف آئی اے کو میرے خلاف استعمال کرنے کی پوری کوشش کی لیکن ناکام رہے، ایف آئی اے کو میرے ساتھ وہی سلوک کرنے کا حکم دیا گیا جو اس نے صحافی محسن بیگ کے ساتھ کیا لیکن خوش قسمتی سے میں نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی تھی۔
انہوں نے کہا کہ دھوکا دہی کے مقدمات 2004، 2009 اور 2010 میں درج کیے گئے تھے اور اس کے بعد تحقیقات کی گئیں۔
بشیر میمن 2019 میں دھماکا خیز انکشاف کے بعد کچھ عرصے تک خبروں میں رہے جہاں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ایف آئی اے کے ڈی ہونے کی وجہ سے انہیں ملک کے ‘اعلیٰ ترین دفتر’ میں طلب کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ عمران خان کی اہلیہ(بشریٰ بی بی) کی تصویر آن لائن شیئر ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل کے اراکین کے خلاف ‘دہشت گردی کا مقدمہ’ درج کریں۔