سابقہ انسداد ریپ کمیٹی تحلیل، حکومت نے نئی کمیٹی تشکیل دے دی

وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابقہ ​​حکومت کی جانب سے بنائی گئی انسداد ریپ کی خصوصی کمیٹی کو تحلیل کرتے ہوئے قانون سازوں، قانونی ماہرین، بیوروکریٹس، وکلا اور طبی ماہرین پر مشتمل 26 رکنی خصوصی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔رپورٹ کے مطابق نوٹیفکیشن کے مطابق انسداد ریپ (تحقیقات اور ٹرائل) ایکٹ 2021 کے سیکشن 15 کی ذیلی دفعہ (1) کی پیروی کرتے ہوئے وزارت قانون و انصاف ایک خصوصی کمیٹی کی تشکیل پر خوش ہے۔نوٹیفکیشن کے مطابق اراکین عوامی فلاح یا اعزازی بنیادوں پر خدمات انجام دیں گے۔

اس سے قبل پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے گزشتہ سال دسمبر میں بنائی گئی 40 رکنی خصوصی کمیٹی کی سربراہی اس وقت کی پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون بیرسٹر ملائکہ علی بخاری نے کی تھی۔

نئے نوٹیفکیشن کے مطابق سابق سینیٹر عائشہ رضا فاروق کمیٹی کی سربراہ ہوں گی جس میں مہناز اکبر عزیز، پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے چیف سیکریٹریز، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) پاکستان کے نمائندے بھی شامل ہوں گے، الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور وزارت قانون، سابق پراسیکیوٹر جنرل پنجاب احتشام قادر، سابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کمال الدین ٹیپو، تیمور علی خان، ایڈووکیٹ عصمت مہدی، خالد پروین، عنبرین قریشی، غزالہ یاسمین، ندا علی اور شرافت علی، ڈیولپمنٹ کنسلٹنٹ والیری خان، محمد علی نیکوکارہ، زینب مصطفیٰ، اینکر ماریہ میمن، پولیس سرجن سمیہ سید اور فرانزک ماہر عائشہ سرور شامل ہیں،۔

انسداد ریپ (تحقیقات اور ٹرائل) ایکٹ 2021، جسے حال ہی میں پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے، اس کا مقصد خصوصی عدالتوں کا قیام اور ریپ کے مقدمات کی تفتیش اور ٹرائل کے دوران جدید آلات کے استعمال کی کوشش کرنا ہے، خصوصی کمیٹی وقتاً فوقتاً نادرا کو جنسی استحصال کے مجرموں کا رجسٹر تیار کرنے کے لیے مناسب ہدایات بھی جاری کر سکتی ہے جس کی تفصیلات صرف عدالت یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کو فراہم کی جائیں گی۔

قانون کے تحت ملک بھر میں خصوصی عدالتیں چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے قائم کی گئی ہیں اور وہ کسی بھی ایسے شخص کو خصوصی عدالت کا جج مقرر کر سکتی ہے جو کم از کم 10سال تک سیشن جج یا ایڈیشنل سیشن جج ہو یا اتنی مدت کے لیے وکیل رہا ہو اور تقرری کے وقت اس فرد کی عمر 70 سال سے زیادہ نہ ہو۔

خصوصی عدالت کے جج کے پاس وہی اختیارات اور دائرہ اختیار ہے جو سیشن عدالت کے ہوتے ہیں اور اس کی تقرری تین سال کی مدت کے لیے کی جائے گی لیکن اسے صوبے کے اندر کسی اور خصوصی عدالت کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔

ملک بھر میں انسداد ریپ کے کرائسس سیل قائم کیے گئے، ان سیلوں کی سربراہی متعلقہ علاقے کے کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کرتے ہیں اور اس میں سرکاری ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور ضلعی پولیس افسر یا ڈویژن کی سربراہی کرنے والا ایک پولیس افسر بھی شامل ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں