سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف مبینہ طور پر ‘بدنیتی’ پر مبنی مہم چلانے کے خلاف ایک شہری نے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان، پی ٹی آئی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد اور دیگر کے خلاف کارروائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی۔
لاہور ہائی کورٹ میں شہری اخترعلی نے میاں داؤد ایڈووکیٹ کی وساطت سے دائر آئینی درخواست میں حکومت پنجاب، وفاقی اور صوبائی اداروں بشمول پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے)، آئی جی پنجاب اور عمران خان کو فریق بنایا گیا ہے۔لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ساجد محمود سیٹھی درخواست پر کل سماعت کریں گے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئین پاکستان، پیمرا آرڈیننس اور پیکا آرڈیننس میں ریاستی اداروں کے خلاف ٹوئٹر، فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک وغیرہ پر سوچی سمجھی بدنیتی پر مہم چلانے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ آئین اور قانون میں آزادی اظہار رائے کی اجازت ہے مگر مسلسل منظم مہم چلانا جرم ہے، عدلیہ، فوج اور الیکشن کمیشن کے خلاف سوشل میڈیا پر منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کے خلاف منظم مہم چلانے کے پیچھے پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل متحرک نظر آتا ہے کیونکہ اداروں کے خلاف پی ٹی آئی کا ایک رہنما بیان دیتا ہے اور پھر اس بیان کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا جاتا ہے۔
درخواست گزار نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کو اسکینڈلائز کیا گیا، جس پر لاہور ہائی کورٹ کے 5 رکنی بینچ کو عدلیہ کو منظم مہم کے ذریعے اسکینڈلائز کرنے پر حکم جاری کرنا پڑا۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ عمران خان اور ان کی سابقہ وفاقی کابینہ کے ساتھ ساتھ پنجاب کی صوبائی کابینہ کے متعدد ارکان نے سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر عدلیہ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور مسلح افواج سمیت ریاستی اداروں کے خلاف منظم مہم شروع کر رکھی ہے اور یہ مفروضہ تیار کیا ہے کہ پی ٹی آئی کو حکومتی بینچوں سے بے دخل کرنے کے پیچھے ریاستی اداروں کا ہاتھ ہے۔
درخواست میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے شیئر کیے گئے ایک کلپ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں ڈاکٹر یٰسمین راشد نے یہ کہہ کر ریاستی اداروں خصوصاً ای سی پی اور مسلح افواج کو بدنام کیا اور الزام لگایا کہ ریاستی ادارے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کا منصوبہ بنا رہے ہیں جو کہ آئین، پیمرا آرڈیننس 2002 اور پیکا 2016 کے خلاف ہے۔
شہری نے درخواست میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بدنیتی پر مبنی ٹارگٹڈ مہم کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا، درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ پنجاب میں ڈیجیٹل میڈیا کے سابق فوکل پرسن اظہر مشوانی اور اینکر پرسن عمران ریاض خان اور ارشد شریف سمیت دیگر افراد اس مہم میں ملوث تھے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ریاستی عہدیداروں کی طرف سے ردعمل نہ دینے کی وجہ سے بدنیتی پر مبنی مواد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود ہے۔
سوشل میڈیا پر اس طرح کی منظم مہم ملک میں عوام میں ہراسانی اور پریشانی کا ماحول پیدا کرتی ہے اور دنیا کی دیگر اقوام اور ممالک کی نظروں میں پاکستانی قوم کی عزت اور وقار کو مجروح کرتی ہے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس مہم نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو نقصان پہنچایا اور کاروباری کمیونٹی کے لیے دنیا بھر میں دیگر کاروباروں سے نمٹنے میں معاشی رکاوٹیں پیدا کیں۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ ریاستی ذمہ داران بشمول وفاقی اور پنجاب حکومت، پی ٹی اے، پیمرا، ایف آئی اے اور آئی جی پی پنجاب کو فوری طور پر ریاستی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے بے بنیاد، اشتعال انگیز، ہتک آمیزاور توہین آمیز مواد ہٹانے کے لیے ہدایات جاری کی جائیں۔
عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ ویڈیوز کی تفصیلی انکوائری کے لیے ہدایات جاری کی جائیں اور حکام کو مستقبل میں ایسی مذموم مہمات روکنے کے لیے ایک نظام وضع کرنے کا حکم دیا جائے۔
درخواست گزار نے اپنی آئینی درخواست میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر منظم مہم روکنے کے لیے حکومت کو پالیسی بنانے کا حکم دیا جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے موجودہ حکمرانوں کے خلاف ‘سو موٹو ایکشن’ نہ لینے پر عدلیہ کے خلاف سوالات اٹھائے تھے۔
سابق وزیراعظم نے کہا تھا کہ عدلیہ اپنے عمل میں ناکامی پر اللہ کے سامنے جوابدہ ہو گی جب ’ بدمعاش حکمران قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں ترمیم کرکے خود کو این آر او دے رہے تھے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اداروں نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں مخلوط حکومت کو پاکستان کے عوام پر مسلط کرنے کی اجازت کیوں دی۔
عمران خان اس سے قبل یہ بھی الزام لگا چکے ہیں کہ پنجاب میں شیڈول ضمنی انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کے لیے مداخلت کی جا رہی ہے۔