(جاوید صدیق)
فلسطین کی تحریک آزادی کے بانی دبیر ویاسر عرفات نے 1974 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ میں زیتون کی شاخ امبر اکر اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے کی پیشکش کی تھی۔ یا ایک تاریخی موقع تھا۔ یاسر عرفات نے جواکثر اپنی مخصوص اور دی میں ہمیشہ پستول بھی لگائے رکھتے تھے یہ بھی کہا تھا کہ میرے ایک ہاتھ میں زیتون کی شاخ ہے اور دوسرے ہاتھ میں پستول ہے اگر مذاکرات کی پیامک مسترد کر دی گئی تو پھر ہم جہاد کیلئے تیار ہیں۔ اس قبل فلسطینی مجاہد لیلی خالد ایک مسافر طیارہ اغوا کر کے دنیا کو مسئلہ
فلسطین کی مشینی کی طرف متوجہ کر چکی تھی۔ اسرائیل نے یاسر عرفات کو اس پیشکش کا مثبت جواب نہ دیا اور اپنی جارہانہ پالیسی جاری رکھی۔ فلسطینیوں کا خون بہتارہا۔ اس کے ہیں سال بعد یاس عرفات اور اسرائیل کے وزیر اعظم پر زرابن نے امریکی کوششوں سے ایک امن کھونے پر اختلط کر دیے۔ یاسر عرفات اور اسرائیلی وز یر اعظم پر زرا بین کو امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔ الجینر یا سرعرفات کی طرف سے رجون کی شاخ کی پیشکش کو اسرائیل نے طاقت اور امریکی پشت پناہی کے زعم میں تقریبا تقریبا تفکر او یا تھا۔ فلسطینی اپنے خون کی قربانی دے کر آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھاتے رہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان اسن کجھو یہ بھی ہوا۔ اسرائیل اس سمجھوتے کے محب فسلطین کے لئے ایک الگ ریاست قائم کرنے کے اصول کو قبول نہیں کیا۔ امریکی اور مغرب کی آشیر باد سے اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمینوں پر ہر وقی قبضہ کر کے وہاں یہودی بستیاں آباد کرنے کا کام تیز کر دیا۔ بیر علم کو اسرائیل کا دالحکومت بنایا مسجد اتنی بھی مہارت کرنے والے فلسطینیوں پر تشدد کر کے انہیں مسجد سے اور دیتی ہے داخل کر دیا گیا۔ یاسر عرفات کی طرف سے پیش کی گئی جون کی شاخ کو اسرائیل نے اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالا ۔ قسطینیوں کو انتفادہ پر جور کردیا گیا۔ روزانہ کی بنیا د فلسطینی نوجوان بچے خواتین اور بزرگ شہید ہوتے ، ہے۔ ان کے گھر مسمار کر کے سرائیکیوں کو آباد کیا جاتا۔ ہا۔ دنیا کو دکھانے کیلئے امریکہ اور یورپ مشرق وسطی میں اس کے قیام کے لئے خصوصی مشن اور نمائندے بھیجتے رہے۔ لیکن پیش دکھاوا تھا۔ اسرائیل اپنا نا جائز قبضہ تمام کرتا رہا۔ کی فلسطینی لیڈروں کو ڈرون حملوں سے شہید کیا گیا۔ یاسر عرفات کو جو فلسطین کی جنگ آزادی کا ایک استعار و تقامہ ہر دے کر مار دیا گیا۔
عمال کا تازہ ترین صلہ ان مظالم کے خلاف رد عمل ہے جو اسرائیل با روک ٹوک کئی دہائیوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ گریٹر اسرائیل کے قیام کیلئے فلسطینی عوام کو اپنے ہی وطن میں مہاتہ بنا کر رکھایا گیا۔ وہ بیچارے نزو کی پٹی اردن کے مغربی کنارے میں مہاجرین کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس صورت حال پر ایک سابق یہودی
کری ماہر نے حال ہی میں لکھا ہے کہ ہم فلسطینی عوام کے ساتھ وہی سلوک کرر ہے ہیں جو المر نے ہمارے ساتھ کیا تھا۔ سیسیلی امتیاز کی ایک بدترین مثال ہے.
تم اس کا ایک منصوبے کے تحت ہوا ہے جس نے اسرائیل اور اس کی فوجی طاقت کا غرور خاک میں ملادیا ہے۔ اسرائیل نے امریکی فوجی اور معاشی اعداد کے ذریعہ ایک بڑی فوج بھائی ہے۔ اس فوج نے 1967 اور 1973ء کی جنگوں میں اپنے سے کئی گنا بڑی عرب ملکوں کی فوج کو شکست فاش دی۔ 1967ء کی جنگ میں عربوں کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ شام کی جولان کی پہاڑیوں اور مصر کی وادی سینا کے بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ مصر کے صدر انور سادات نے امریکی کوششوں سے اپنا علاقہ کمپ ڈیوڈ کھوتے پر دستخط کر کے واپس لے لیا۔ لیکن انور سادات کی اس حرکت کو عربوں نے قبول نہ کیا اور اسے عربوں سے غداری قرار دیا۔ مصری صدر کو اس غداری کی سزا اس وقت دی گئی جب قاہرہ میں مصری فوج کی پریڈ کی سلامی لے رہے تھے۔ ایک فوجی آفیسر نے نیک کا گولہ فائر کر کے پیج پر سلامی لیے مصر کے انور
سادات کو قتل کر دیا۔ قائد اعظم نے اسرائیل کو ایک نا جائز ریاست قرار دیاتھا۔ اسرائیل کو پھر سال میں اس کا ایک ان دیکھا نصیب نہیں ہوا۔ دنیا کے مختلف ملکوں سے نکالے گئے یہودی اسرائیل میں آکر آباد ہوتے ہیں۔ اسرائیل میں آباد ہو دیوں کو نازی جرمنی میں ہٹلر کی یہودی مخالف کاروائیوں کانشانہ بنایا۔ بنکر نے جرمن میں موجود یہودیوں کوگرفتار کر کے نہ صرف ملک بدر کیا بلکہ انہیں چن چن کر قتل کیا۔ یہودیوں کا دھوئی ہے کہ ہنٹر کی نازی حکومت نے ساتھ لاکھ یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ انہیں گیس چیمبروں میں ڈال کر ہلاک کیا۔ وہ فلسطینی نو جوانوں نے اس یہودی پروپیگنڈہ کا گزشتہ صدی میں ایک تحقیقی مقالہ میں بھانڈہ پھوڑ دیا تھا۔فلسطینی نو جوان ایر چی رز نے اعدادوشمار کے ساتھ قربت کیا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران پورے یورپ میں ساتھ لاکھ یہودی آباد میں تھے۔ جرمنی میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو
بلاک کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ اسرائیل ایک مرتبہ پھر مغربی ملکوں کی بلا شیری سے فلسطینیوں کی نسل کشی پر اتر آیا ہے۔ حسب روایت اُس نے رضا کی اور بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہسپتال پر بمباری کر کے سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے۔ بیتن یاہو کی کوشش ہے کہ غزہ میں موجود فلسطینی باشندوں کا قتل عام کر کے انہیں غزہ سے نکال دیا جائے مغربی کنارے اور فلسطینی باشندوں کے پاس جو علاقے میں انہیں چھین لیا جائے۔ گریٹر اسرائیل قائم کیا جائے ۔ فلسطین جانیں اور مسلمان سب مل کر روتے رہیں ، ماتم کرتے رہیں۔