وفاقی وزیر داخلہ راناثنا اللہ نے کہا ہے کہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ خونی مارچ کیا جائے گا، اگر خونی لانگ مارچ کا بیان واپس نہ لیا گیا تو تمہیں گھر سے باہر نہیں نکلنے دوں گا۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ عثمان بزدار نام کے وزیر اعلیٰ تھے، وہ فرح گوگی کے ذریعے آنے والے حکم کا نفاذ کرتے تھے، انہوں نے تقرر و تبادلوں میں اربوں روپے جمع کیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرانزیکشن کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ فرح نے کروڑوں روپے باہر بھیجے ہیں اور لگتا ہے کہ عمران خان نے ایمنسٹی اسکیم فرح گوگی کے لیے نکالی تھی کیونکہ اس سے وہ کافی مستفید ہوئیں لیکن یہ الزامات ہیں، ہم ان کی طرح نہیں کریں گے کہ الزامات کو شواہد اور شواہد کو فیصلے کے طور پر پیش کریں۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ان الزامات پر تحقیقات ہورہی ہیں اور تحقیقات کے بعد جو مناسب شواہد سامنے آئیں گے پھر ان کے خلاف ریفرنس یا مقدمہ درج ہوگا اور اگر قانون کا تقاضہ ہوا کہ انہیں ریڈ وارنٹ کے ذریعے واپس لایا جائے تو انہیں بالکل واپس لایا جائے گا۔
اپنے اوپر چلنے والے کیس کے حوالے سے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ میں پچھلے دو ڈھائی سال سے منشیات کیس میں پیشی پر آرہا ہوں، عمران خان کو اس بات پر شرم آنی چاہیے کہ تم نے جھوٹے کیس بنائے، تم نے عوام کی فلاح کا کوئی کام نہیں کیا، ان کیسز میں اگر لوگ ضمانت پر رہا ہیں اور عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں تو تمہیں شرم آنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ضمانتوں میں رہا ہونے کے باوجود عدالتوں میں پیش ہونا ہمارا قانون کا احترام کرنے کا جذبہ ہے جبکہ وہ بے شرم ٹولہ یہ کہہ رہا ہے کہ ساری کابینہ ضمانتوں پر ہے اور ہم پر کیسز چل رہے ہیں، یہ جھوٹے کیسز تو تم نے بنائے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ منشیات کیسز میں صرف دو ملزم ہیں ایک کا نام عمران خان ہے اور دوسرے کا نام شہزاد اکبر ہے، شہزاد اکبر نے اس وقت اسلام آباد پولیس افسر سے خود رابطہ کیا اور انہیں کہا کہ ہم رانا ثنا اللہ پر کیس کرنا چاہتے ہیں اور یہ وزیر اعظم کا حکم ہے لیکن پولیس افسر کے راضی نہ ہونے پر انہوں نے اے این ایف کے ذریعے یہ کام کیا۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھ کر اگر ایک شخص ایسی حرکتوں کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے بعد اسے کیا حق ہے کہ وہ کہے کہ میرے خلاف سازش ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کل میانوالی میں جلسے سے خطاب میں اس نے آزادی کا سفر شروع کیا ہے جبکہ ہمیں آزاد ہوئے 74 سال ہوچکے ہیں، میرے خیال سے یہ درست کہا جارہا ہے کہ یہ فرح گوگی کو بچانے کی کوشش ہے۔
انہوں نے کہا کہ کل انہوں نے کہا کہ رانا ثنا اللہ نے اتنے قتل کیے ہیں، اگر میں نے اتنے قتل کیے تھے تو تمہیں منشیات کا مقدمہ بنانے کی کیا ضرورت تھی، اگر میں نے قتل کیے تھے تو آپ نے قتل کا مقدمہ کیوں نہیں بنایا، آپ کے پاس شواہد تھے تو سامنے لے کر آتے۔
عمران خان کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ میں بطور صدر مسلم لیگ (ن) پنجاب کہہ رہا ہوں کہ اگر تم اس گھٹیا حرکت سے باز نہ آئے اور اگر تم مسلسل اپنے کارکنان کو دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف بھڑکاتے رہے تو تمہیں بھی یہ بھگتنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سلسلہ جاری رہا تو ہمیں بھی اپنے کارکنان کو کہنا پڑے گا کہ جہاں تمہارے (برگر) اور (یوتھیے) اس قسم کی حرکت کریں وہی ان کی مرمت کردی جائے، اگر آپ ایسا چاہتے ہیں تو انہیں للکارتے رہیں لیکن یہ آپ کی بھول ہے کہ آپ انارکی کا ماحول پیدا کر سکتے ہیں، ایسا کچھ نہیں ہوگا، ان کو جوتے پڑیں گے اور یہ سدھر جائیں گے۔
انہوں نے عمران خان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ آپ دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین کا احترام کریں، مسجد نبویﷺ میں بھی آپ نے ان بدمعاشوں کو بھیجا اور آپ کہتے ہیں ہم نے کچھ نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تم لوگوں کو گمراہ کرتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ لانگ مارچ خونی لانگ مارچ ہوگا، اگر تم نے یہ بیان واپس نہ لیا تو اور لانگ مارچ پُر امن نہ ہوا تو میں تمہیں گھر سے نہیں نکلنے دوں گا، تم مجھے جانتے نہیں ہو۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ تم کہہ رہے ہو کہ لوگ آگ لگانے کو تیار ہیں، اگر تمہیں آگ لگانی ہے تو اپنے وجود کو آگ لگاؤ، لوگوں کو نہ اکساؤ۔
مسجد نبویﷺ واقعے سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مذہبی طبقے اس معاملے پر سراپا احتجاج ہیں، ہم یہ سب نہیں چاہتے، میں آپ کو کہتا ہوں کہ آپ ہوش کے ناخن لیں، اس واقعے پر قوم سے معافی مانگیں اور جو لوگ آپ نے وہاں بھیجے تھے ان کے خلاف کارروائی کریں۔
انتخابات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ انتخابات آئندہ سال ہونے ہیں، سابق حکومت اپنی نااہلی کی وجہ سے اپنا دور مکمل نہیں کرسکی، اس سلسلے میں ہم نے عوامی مہم شروع کردی ہے، انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے۔
نواز شریف کی سزا سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب میاں نواز شریف باہر گئے تھے تو پنجاب حکومت کی سزا کو معطل کرنے کے بعد باہر گئے تھے، انہیں واپس لانے سے متعلق اختیار حکومت کے پاس موجود ہے لیکن یہ نواز شریف پر منحصر ہے کہ وہ اس اختیار سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں اٹھاتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں حکومت کے زیر غور کوئی بات نہیں کیونکہ میاں نواز شریف کی طرف سے کوئی درخواست نہیں آئی ہے۔
راناثنا اللہ نے کہا کہ ہم کسی کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنانے جارہے البتہ کسی کے خلاف تحقیقات میں کوئی جرم ثابت ہوا تو اس کے خلاف مقدمہ ہوگا۔