حکومت کا بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے کا انتباہ

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے خبردار کیا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ متفقہ اصولوں کے تحت سبسڈی کی واپسی کے ذریعے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے بعد بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوگا۔

رپورٹ کے مطابق ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے حالیہ مذاکرات میں آئی ایم ایف کے ساتھ بہت ماہرانہ انداز میں شرائط کو حتمی شکل دی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ادھار کی رقم سے امیروں کو فائدہ فراہم نہیں کیا جا سکتا لیکن سبسڈی واپس لینے کے عمل میں غریبوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے عالمی سبسڈیز کو ختم کرنے کا عزم کیا ہے جو امیر اور غریب کے لیے یکساں طور پر دستیاب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ اعلیٰ سطح کا معاہدہ ہے جس کے تحت ہم یہ تمام فیصلے کر رہے ہیں، بجلی کی قیمتوں کو بھی انہی خطوط پر طے کیا جائے گا تاکہ غریب محفوظ رہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 4 سالوں میں خراب معاشی پالیسیوں اور بدانتظامی کے ساتھ ساتھ بیرونی عوامل کے اثرات کے سبب اب چیلنج یہ ہے کہ 6 میں سے 4 خاندانوں کی آمدنی 25 ہزار سے 30 ہزار روپے ماہانہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوال یہ تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ ٹریک پر کیسے لایا جائے، انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ جلد طے پا جائے گا اور ملک استحکام کی جانب بڑھے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے سے مارکیٹ کا اعتماد بحال ہوا اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 2 روپے کا اضافہ ہوا اور اسٹاک مارکیٹ میں بہتری آئی۔

مصدق ملک نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو جب اپنی حکومت جانے کا یقین ہوگیا تو انہوں نے قیمتیں کم کر دیں اور انہیں 4 ماہ کے لیے منجمد کر دیا لیکن حکومتی ریکارڈ سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ یہ فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کابینہ، وزیر اعظم کے تحریری حکم یا وزارت خزانہ کی جانب سے دی گئی کسی منظوری کے ساتھ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس اعلان کے نتیجے میں محدود مدت کے لیے براہ راست سبسڈی کے تقریباً 120 ارب روپے سے 360 ارب روپے تک ماہانہ اثرات مرتب ہوئے لیکن اگر ٹیکسز کو بھی شامل کیا جائے تو مجموعی مالیاتی اثرات 3 سے 4 ماہ میں 7 سے 8 کھرب روپے تک پہنچ گئے، یہ سول انتظامیہ کو چلانے کے لیے سال بھر کے لیے درکار 5 کھرب 20 ارب روپے سے زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئی حکومت نے اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے وقت لیا کیونکہ حکومت ایک ایسا فول پروف طریقہ کار چاہتی ہے جو غریبوں کو قیمتوں میں اضافے سے محفوظ رکھے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے روس کے ساتھ 30 فیصد سستے تیل اور ایل این جی کی درآمد کے سودوں کے دعووں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر پٹرولیم نے کہا کہ ریکارڈ پر ایسا کوئی معاہدہ یا مفاہمت کی یادداشت موجود نہیں ہے جس سے ایسے دعووں کی تصدیق کی جا سکے۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ سابق وزیر توانائی نے روسی وزیر کو خط لکھا تھا جس میں روس سے تیل اور گیس کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی گئی تھی لیکن روس کی جانب سے اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔

مصدق ملک نے کہا کہ ماسکو میں پاکستان کے سفیر نے روسی وزارت توانائی سے رابطہ کیا، لیکن سستے تیل یا گیس پر کوئی جواب نہیں ملا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ روس نے انفرااسٹرکچر منصوبوں پر بات چیت کے لیے دلچسپی ظاہر کی۔

انہوں نے کہا کہ بعدازاں پاکستان کی وزارت خارجہ نے یہ معاملہ اسلام آباد میں روسی ایلچی کے ساتھ دوبارہ اٹھایا جنہوں نے اسی طرح کا خط دوبارہ بھیجنے کا مشورہ دیا جس پر پاکستان کی جانب سے عملدرآمد کیا گیا لیکن تاحال اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی روسی معاہدے کے بعد بھارتی تیل کی مبینہ سستی قیمتوں کے بارے میں بھی غلط معلومات پھیلا رہی ہے، حقیقت یہ تھی کہ قیمتوں میں اضافے کے بعد بھی پاکستان میں پیٹرول کی قیمت 180 روپے فی لیٹر رہی جبکہ بھارت میں 250 روپے فی لیٹر ہے۔

مصدق ملک نے کہا کہ اسی طرح بھارت میں ڈیزل کی قیمت اب 234 روپے فی لیٹر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں تازہ ترین قیمتیں بھی بھارت کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے صرف پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں پر سنٹرل ایکسائز ڈیوٹی میں کمی کی تھی جبکہ پاکستان میں اسی طرز کا جی ایس ٹی پہلے ہی صفر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں