جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج، نوٹیفکیشن جاری

صدر مملکت کی منظوری کے بعد وفاقی وزارت قانون اور انصاف نے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا اور یوں وہ عدالت عظمیٰ کی پہلی خاتون جج بن گئی ہیں۔

وفاقی وزارت قانون اور انصاف سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ آف پاکستان میں بطور جج تعیناتی کی منظوری صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے دی۔

نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ ‘اسلامی جمہوری پاکستان کے آئین کی شق 177 کی ذیلی شق ون کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے صدر مملکت نے لاہور ہائی کورٹ کی جج مسز عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کی جج کے طور پر تعینات کردیا ہے’۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کا اطلاق ان کے حلف اٹھانے کے روز سے ہو گا۔

دو روز قبل پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تعیناتی نے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی منظوری دے دی تھی۔

جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی گزشتہ کئی مہینوں کی بحث کے بعد ہوئی جہاں کئی ماہرین کا خیال تھا کہ یہ سنیارٹی کے اصول کی بنیاد کی خلاف ورزی ہے کیونکہ وہ لاہور ہائی کورٹ میں چوتھے نمبر پر سینئر جج تھیں۔

ان کی تعیناتی کے حق میں دلائل دینے والوں کا مؤقف تھا کہ آئین پاکستان کے تحت سپریم کورٹ میں جج تعیناتی کے لیے سنیارٹی کا اصول نہیں ہے اور ملک کی تاریخ میں صوبائی ہائی کورٹس سے ججوں سنیارٹی کو مدنظر رکھے بغیر تعینات کردیا گیا ہے۔

سینیٹر فاروق نائیک نے کہا کہ عائشہ ملک کے نام کی منظوری اتفاق رائے سے دی گئی ہے اور اس کی سفارش جوڈیشل کمیشن نے کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم سینیارٹی کا طریقہ کار ختم نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایک خاتون کا پہلی بار تقرری ہورہا ہے تو اس کی منظوری دی ہے۔

فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ جسٹس عائشہ ملک کے نام کی منظوری ملکی مفاد میں دی ہے۔

قبل ازیں ستمبر 2021 میں منعقدہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس عائشہ ملک کے نام کی منظوری نہیں دی گئی تھی۔

جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے دوران کمیشن کے 4 اراکین نے جسٹس عائشہ ملک کے تقرر کی مخالفت کی جو لاہور ہائی کورٹ میں سینیارٹی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے 4 اراکین نے حمایت کی تھی۔

اس وقت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبداللطیف آفریدی نے ملک بھر کی بارز میں احتجاج کا اعلان کیا تھا اور وکلا برادری نے اس معاملے کو سنیئر ججوں کی عدالت عظمیٰ میں تقرر کے لیے زیادتی قرار دیا تھا۔

جوڈیشل کمیشن کے 6 جنوری کے اجلاس کے حوالے سے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے صحافیوں سے گفتگو کرتےہوئے کہا تھا کہ جوڈیشل کمیشن نے تاریخی فیصلہ کیا یے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون کا سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرر ہوا۔

انہوں نے کہا کہ 5 اراکین نے حق میں ووٹ دیا اور 4 اراکین نے مخالفت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے جسٹس عائشہ ملک کے سپریم کورٹ میں بطور جج تقرر کی حمایت کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں