تیسری عالمی جنگ اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے اس جنگ میں تمام سپر پاورز اور ایٹمی پاورز ناکام اور شکست سے دو چار رہیں۔ ہم صرف لاشیں اُٹھانے والوں میں ٹھہرے ہیں؟

تحریر: پروفیسر مُلازم حسین بخاری
پہلے زمانے میں جنگیں لاٹھیوں اور پتھروں سے لڑی جاتی تھیں، ان کے لیے اونٹ، گھوڑے اور ہاتھی استعمال کئے جاتے تھے
پھر لوہے کا زمانہ آیا تو جنگوں کا نقشہ بدل گیا، بحری بیڑے تیار ہوئے اور تلوار اور نیزوں نے اپنا مقام بنایا اور برق رفتار گھوڑوں نے جنگ کا نقشہ بدل ڈالا۔
دوسری جنگ عظیم میں لڑاکا جہاز اور ایٹمی بارود نے پورے دنیا کو نئے سرے سے تقسیم کر دیا اور جوہری طاقت کی طرف ممالک دوڑ پڑے
امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، روس، فرانس، اسرائیل، انڈیا اور پاکستان کامیاب تجربات کے بعد نیوکلیئر میزائیل سے لیس ہونے چل پڑے۔
20 ویں صدی میں ہونے والی جنگیں بھی مختلف ممالک کے اتحاد سے قائم ہونے والی سیاسی تنظیموں کا نتیجہ تھیں جن کا مقصد صرف اپنے مفادات کا دفاع تھا۔
مریخ پر اور چاند پر قبضہ کرنے کی کوشش کے باوجود تیسری جنگ عظیم ہار گئے س دنیا کو ایک چھوٹے سے وائرس نے تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ آج مورخہ تیرہ جون دوہزار اکیس تک اندازہ کے مطابق 176,423,385 لوگ متاثر اور 3,810,989 لوگ لقمہ اجل بن گئے اور ناجانے
یہ تو ہماری اوقات ہے اس معمولی وائرس کے سامنے۔
کروناوائرس نے دنیا کے ہیلتھ کیئر سسٹم کو بے نقاب کر دیا اور دنیا کو بتا دیا اگلی جنگیں معیشت اور اقتصادیات پر کھیلیں جائیں گی، جو لوگوں کی صحت کو متاثر کریں گی
اور وہی ممالک کامیاب ہوں گے جنکی معیشت مقامی پیداوار پر اور بہتر ہیلتھ کیئر سسٹم پر منحصر ہوگا۔ اب جنگیں سرحدوں پر نہیں بلکہ گنجان شہروں کے اندر لڑی گئی
یہ وائرس 2019 کے آخر میں نمودار ہوا جسے COVID۔ 19 کا نام دیا گیا۔ یہ کرونا وائرس کہاں سے آیا اور کیسے پھیلا ابھی تک ایک سوال ہے اگر چین سے آیا ہے تو پھر برازیل میں کیسے پہنچا
سو تیسری جنگ عظیم میں چین جیت چکا ہے اور امریکہ کو شکست فاش ہوئی ہے۔ اور ہم تیسرئ دنیا کے لوگ بیچارے نہ فاتح ہیں نہ مفتوح بس لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ اور اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر بھی ہم جیسے ترقی پذیر ممالک ہو رہے ہیں۔ جن کی معیشت کا جنازہ نکل جائے گا۔ ہم جیسے ممالک میں کروناوائرس سے مرنے والوں کا مسئلہ نہیں ہے ہم تو بھوک اور افلاس سے مرنے والوں کا حساب لگا رہے ہیں۔ ہم تو اپنی معیشت کی لاش اٹھائے پھر رہے ہیں۔ کرونا سے لوگ مریں نہ مریں بھوک سے مر جائیں گے۔ اور اس کروناوائرس کے بعد ہمارا ملک جو پہلے ہی قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا وہ مزید تباہ ہوجائے(احمد ندیم قاسمی)
ایک اور خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد نیوکلیئر تابکاری اثرات نے نئی بیماری “کینسر”کو جنم لیا کہیں کروناوایرس اپنے دیر پا اثر نئی بیماری کی شکل میں نیا ٹحفہ نہ دے جائے۔ اس کروناوائرس کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی یہ کسی کو معلوم نہیں۔ یقنا یہ پہلے جیسی تو بالکل نہیں ہوگی۔ نئی پالیسیاں بنائی جائیں گی جو پوری دنیا پر لاگو ہوں گی اور شاید کروناوائرس اس گلوبل ولیج کے تابوت میں آخری کیل ہی نہ ٹھونک دے۔ اس آئی ایم ایف اور کے بعد گلوبل ولیج کی مزار بنتی ہوئی نظر آتی ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی جنگیں مستقبل میں بھی ہوں گی معلوم نہیں وہ زمانہ کیسا ہوگا
امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے دن قریب آنا شروع ہو گئے ہیں اور اگلا زمانہ انہیں کے اثرات کا مرحوم منت ہوگا اس لیے ہمیں احکامات اسلام کے مطابق اپنے اپ کو بدلنا ہوگا اور طبی نظام میں تبدیلی لانا ہوگی
مگر ہماری حکومت نے ایک دفعہ پھر ثابت کردیا کہ بجٹ میں تعلیم اور صحت اپنا مقام بنا نہ پائی اور ڈیفینس ہمیشہ زیادہ حصہ لے گیا۔
کسی بھی نیوکلئر ہتھیار نے اس سارس کو وی ٹو صاحب کو روکنے کی کوشش نہیں کی، کسی بھی میزائیل نے اس کا راستہ نہیں روکا۔ ویکسین جو بائیو ٹیکنالوجی لیبز میں بنتی ہیں جو اس جنگ کو روکنے میں کامیاب نظر آتی ہیں اسے ماضی کی دنیا میں پھر فراموش کر دیا گیا، نئی گاڑیوں کی فیکٹریاں لگائی جا رہی ہیں مگر سائنس کی دنیا کی لیب کے بارے میں پاکستان سمیت کسی ملک نے توجہ نہیں دی
وہی پرانے بیوپاری اپنا سامان بیچتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جو ماضی میں خون نچوڑتے نظر آتے ہیں ، اربوں ڈالرز ویکسین خریدنے پر لگائے جا رہے ہیں اس سے تہائی بجٹ میں سائنسدان اور ویکسین کی تیاری کے کارخانے لگ سکتے ہیں
مگر افسوس ہم نے نہ کبھی ماضی سے پہلے سبق سیکھا اور نہ کبھی اب سیکھیں گے۔ غلامی کا طوق پہلے لوہے کا تھا اب سونے کا بن چکا ہے جسے اپنے ماتھے پر سجاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔
پاکستان کا ہیلتھ کیئر سسٹم
ہم عالمی جنگ میں نہ تین میں اور نہ تیرہ میں ہیں
اس ملک کا ہیلتھ کیئر سٹم جو پہلے ہی تباہ حال ہے موجودہ وبا نے ناصرف بے نقاب کر دیا بلکہ اس کا موجودہ بھرم بھی توڑ دیا ہے۔
ہمارے ہیلتھ سسٹم میں جو خرابیاں موجود ہیں ان کے لیے کوئی منظم پالیسی تشکیل دی جا سکے۔ ابھی ہمارے ملک میں کوویڈ سے متاثرہ مریض اس تعداد میں نہیں ہیں جو ہمارے ہمسایہ ممالک میں ہیں مگر ہمارا ہیلتھ کیئرسسٹم ابھی سے لڑکھڑانا شروع ہو گیا ہے۔
حکومت کو اس کے بجٹ میں کئی گنا اضافہ کرنا چاہئے تھا اور میڈیکل کے شعبہ میں تعلیم و تربیت و ریسرچ کے مواقع فراہم کرنے چاہیے تھے، شعبہ نرسنگ الائیڈ ہیلتھ سائنسز اور پیرا میڈیکس میں انقلاب لانے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں