اقوام متحدہ میں ترقی پذیر ممالک کے سب سے بڑے بین الحکومتی گروپ کی سربراہی پاکستان کو مل گئی ہے جس پر حکومتی حلقے خوش ہیں لیکن کئی ناقدین یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ اس گروپ کی سربراہی سے ملک کو کوئی فائدہ بھی ہوگا یا نہیں۔
پاکستان کے دفترخارجہ کی ایک پریس ریلیز کے مطابق یہ انتخاب منگل کو ایک ورچوئل اجلاس میں ہوا۔ جی سیونٹی سیون کے اس وزارتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے ان 134 ممالک اور چین کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے پاکستان کی اس انتخاب کے لیے حمایت کی۔ پاکستان اس گروپ کی سربراہی 2022 میں سنبھالے گا۔
گروپ کی تاریخ
یہ گروپ 1964 میں قائم ہوا تھا اور کچھ ماہرین کے خیال میں جس طرح ترقی پذیر ممالک نے سیاسی میدان میں ایک غیر جانبدار ممالک کی ایک تنظیم بنائی تھی جسے نان الائنڈ موومنٹ کہا جاتا تھا، بالکل اسی طرح یہ تنظیم معاشی میدان میں کام کرنےکے لیے بنائی گئی تھی۔ انیس سو چونسٹھ میں قائم ہونے والی اس تنظیم میں زیادہ تر غریب اور ترقی پذیر ممالک ہیں۔ ان ممالک میں بہت سارے ایسے ہیں جو 1950 کی دہائی یا اس سے پہلے آزاد ہوئے تھے۔ پاکستان اس سے پہلے بھی تین مرتبہ اس تنظیم کا سربراہ منتخب ہوا ہے۔ تنظیم کا بنیادی مقصد گلوبل ساؤتھ کے ممالک کے معاشی مفادات کا یو این سسٹم کے اندر تحفظ کرنا ہے۔
فائدہ ہو سکتا ہے
مبصرین کا خیال ہے کہ ممالک مختلف بین الاقوامی اداروں کی سربراہی لے کر دوسرے ممالک کے ساتھ لابنگ کرتے ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، جیسے کہ بھارت نے ایف اے ٹی ایف میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کر کے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کیں اور اپنے قومی مفادات کا تحفظ کیا۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ میں کسی بھی رسمی اور غیررسمی ادارے کی سربراہی کسی بھی ملک کے لیے اعزاز ہوتی ہے۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا، “اس گروپ کے ساتھ چین بھی ہے پاکستان اگر چاہے تو اس گروپ میں لابنگ کرکے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستان ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر کوئی ایسا پریشر گروپ بنا سکتا ہے جو ترقی یافتہ ممالک کی کمپنیوں کو مجبور کر سکے کہ وہ تیسری دنیا میں سرمایہ کاری کرتے وقت سخت شرائط نہ رکھیں اور ٹیکنالوجی کے ٹرانسفر کو بھی یقینی بنائیں تاکہ وہاں روزگار کے مواقع فراہم ہو۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے حوالے سے بھی پاکستان، چین اور اس گروپ کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کوئی لائحہ عمل بنا سکتا ہے، جس سے اسلام آباد کو بھی فائدہ ہوگا۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں کئی حلقے اس بات کے حامی ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کو معاف کیا جائے۔ “پاکستان دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور یہ قرضے دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ پاکستان اس گروپ کے ممالک کے ساتھ لابنگ کرکے ان قرضوں کے حوالے سے بات چیت کر سکتا ہے اگر قرضے معاف نہیں کیے جا سکتے تو کم از کم ان میں نرمی تو کی جا سکتی ہے یا ان کی مدت ادائیگی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، جس سے ترقی پزید ممالک اور پاکستان کی مشکلات کم ہوں گی۔ ترقی پذیر ممالک کے سیاستدان ترقی یافتہ ممالک کے بینکوں میں کرپشن کے اربوں ڈالرز جمع کراتے ہیں۔ پاکستان اس گروپ کے ساتھ ملکر اس کو روکنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔”
کوئی خاص فائدہ نہیں
لیکن خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس گروپ کے پاس کوئی خاص اختیارات نہیں ہے۔ لہذا اس کی سربراہی کوئی بہت بڑی بات نہیں۔ پاکستان میں اقوام متحدہ کے سابق سفیر شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کے اہم بات اس وقت ہوتی ہے جب آپ کو کسی اہم ادارے کی رکنیت ملے یا سربراہی ملے۔ انہوں نےمیڈیا کو بتایا، “پاکستان کو اس سے پہلے بھی مختلف اداروں کی سربراہی ملی ہے لیکن وہ اتنے طاقتور ادارے نہیں تھے۔ جی سیونٹی سیون کوئی طاقتور ادارہ نہیں ہے، نہ اس کے پاس کوئی مالی اختیارات ہیں اور نہ ہی سیاسی اختیارات ہیں۔ یہ غیر جانبدار ممالک کی تنظیم کی طرح ہے ایک تنطیم ہے، جو معاشی میدان میں کام کرتی ہے لیکن اس کا عالمی سطح پر کوئی خاص اثر نہیں ہے۔”