پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات پر صر ف پاکستانیوں کو ہی تشویش نہیں بلکہ دُنیا کے دوسرے ملک اور بین الاقوامی ادارے بھی ہمارے حالات پر پریشان ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی ترقی کی گرتی ہوئی شرح کا عندیہ دے چکے ہیں۔ سیلابوں نے معیشت میں بہتری کا خواب چکنا چور کردیا ہے۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق سیلاب سے پاکستان کو کم وبیش 30ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہےاس نقصان کو پورا کرنے کے لئے اقوام متحدہ نے جو اپیل کی ہے اس کا بھی کوئی خاطرخواہ رسپانس نہیں مل رہا۔ خودوزیراعظم یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ کوئی بھی ملک پاکستان کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ٹھوس مدد دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ان حالات میں جب کہ ہماری معیشت دن بدن گرتی چلی جارہی ہے۔ اس سے ہماری قومی قیادت ،معیشت دان، کاروباری اور صنعتی طبقہ معیشت کو سدھارنے کا کیا حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ سب کے سب کسی معجزے کا انتظارکررہے ہیں۔ کسی کے پاس کوئی قابل عمل حل موجود نہیں ہے اب تو یہ خبریں آنے لگی ہیں کہ کئی بڑے تاجر اور صنعت کار اپنا ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں سرمایہ منتقل کرنے پر غور کررہے ہیں۔یہ بڑا آسان حل ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ پاکستان کے مسائل حل کرنے کی بجائے اور اسے ایک بہتر ملک بنانے کی بجائے ملک چھوڑ دیا جائے۔ یہ صرف ہمارے صنعت کار ، سرمایہ کار ہی نہیں کررہے بلکہ ہمارے بیوروکریٹ جو ملک کا انتظام چلا رہے ہیں ان کا بھی یہی حال ہے۔ ایک سروے کے مطابق 20ہزار سے زیادہ بیوروکریٹس کے پاس دوہری شہریت ہے۔ وہ انتظار میں ہیں کہ کب ریٹائر ڈہوں یا ریٹائرمنٹ لے کر اپنی فیملیز کے ساتھ باہر چلے جائیں۔اگر یہی ہمارے طریقہ کار رہا تو پاکستان کااللہ حافظ ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ ہماری قوم مسائل کا سامنا کرنے کی بجائے فرار کا راستہ اختیار کررہی ہے اور کسی معجزے کا انتظارکررہی ہے کہ معجزہ رونما ہو اور کوئی آسمان سے اُترآئے اور ہمارے مسائل حل کردے یا کوئی دوسرا ملک آکر ہمارے مسائل حل کرے۔ ہم نے خود کچھ نہیں کرنا۔سیاسی قیادت ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں لگی ہوئی ہے۔
نوے کی دہائی میں ایک برطانوی خاتون صحافی کرسٹینالیمب کوبڑی شہرت ملی تھی۔ کرسٹینالیمب اُن دنوں پاکستان تھی جب بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں۔ کرسٹینا لیمب نے پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات کا جائزہ لے کر ایک کتاب “Waiting for Allah – The Struggle for Democracy”لکھی تھی۔ اس کتاب میں کرسٹینا نے یہ لکھا تھا کہ کس طرح پاکستان کے کرتا دھرتا راہنماء بے عملی کا شکار ہیں۔ اُنہیں احساس نہیں ہے کہ پاکستان کس طرح کے مسائل میں اٹکا ہوا ہے۔ یہ راہنماء ان مسائل کا حل ڈھونڈنے کی بجائے اس انتظار میں ہیں کہ کوئی آکر اُن کے مسائل حل کرے گا۔ آج بھی ہمارے لیڈر شایدآسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ شاید کوئی معجزہ ہوگاکہ کوئی اوپر سے آئے گا اور 23کروڑ لوگوں کے مسائل حل کرے گا۔وہ خود کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔