تائیوان کی صدر سائی انگ وین نے منگل کے روز قومی دن کے موقع پر اپنے آخری خطاب میں کہا کہ تائیوان آزادانہ اور بلا روک ٹوک بات چیت کے ساتھ چین کے ساتھ “پرامن بقائے باہمی” کا خواہاں ہے لیکن یہ جزیرہ آنے والی نسلوں کے لئے جمہوری رہے گا۔
تائیوان، جس پر چین اپنا علاقہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، بیجنگ کی جانب سے بڑھتے ہوئے فوجی اور سیاسی دباؤ کی زد میں ہے، جس میں گزشتہ سال اگست سے جزیرے کے قریب چینی جنگی مشقوں کے دو بڑے سیٹ بھی شامل ہیں، جس سے تنازعکے خدشات میں اضافہ ہوا ہے جس کے عالمی اثرات مرتب ہوں گے۔
تسائی، جو دو بار اقتدار میں رہنے کے بعد جنوری میں ہونے والے انتخابات میں دوبارہ صدر کے طور پر کھڑے نہیں ہو سکتیں، نے بار بار چین کے ساتھ بات چیت کی پیش کش کی ہے، جس نے انہیں مسترد کر دیا ہے کیونکہ وہ انہیں علیحدگی پسند سمجھتا ہے۔
تائیوان کے صدارتی دفتر کے سامنے اظہار خیال کرتے ہوئے سائی نے کہا کہ تائیوان کے لیے بین الاقوامی حمایت کی طاقت ‘غیر معمولی بلندی’ پر پہنچ چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ یہ ایک ایسا وقت ہے جب ہم اعتماد اور عزم کے ساتھ دنیا کا سامنا کرسکتے ہیں ، لہذا ہم چین کا سامنا کرنے میں پرسکون اور خود اعتماد بھی ہوسکتے ہیں ، پرامن بقائے باہمی اور آبنائے تائیوان میں مستقبل کی پیش رفت کے لئے حالات پیدا کرسکتے ہیں۔