بیورو کریسی سستی گیس کی راہ میں رکاوٹ ہے، سی این جی انڈسٹری کا دعویٰ

اسلام آباد: ملک میں توانائی کے سنگین بحران کے باعث سی این جی انڈسٹری نے سی این جی اسٹیشنوں پر سستی گیس درآمد کرنے سے روکنے اور پیٹرول کی تقریباً آدھی قیمت پر فروخت کرنے سے روکنے پر بیوروکریسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔رپورٹ کے مطابق آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن (اے پی سی این جی اے) کے گروپ لیڈر غیاث عبداللہ پراچہ نے منگل کو میڈیا بریفنگ میں کہا کہ اگر ہمیں صرف ایل این جی درآمد کرنے کی اجازت دی جائے تو صارفین سستے ایندھن سے فائدہ اٹھائیں گے، حکومت کچھ پیسے بچائے گی کیونکہ کم پیٹرول درآمد کرنا پڑے گا، ٹرمینلز ہمارے ایل این جی کارگو کو آف لوڈ کرکے چارجز وصول کریں گے جبکہ ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی نقل و حمل کے لیے کرایہ وصول کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ تمام مطلوبہ ضوابط آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے تقریباً پانچ سال پہلے بنائے تھے لیکن چند سرکاری محکمے اور چند بیوروکریٹس ہمیں ایل این جی درآمد کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کا ایک ایل این جی ٹرمینل اپنی صلاحیت کے 78 فیصد پر کام کر رہا ہے لیکن ایل این جی کی درآمد اور تقسیم پر اجارہ داری رکھنے والی سرکاری کمپنیاں نجی شعبے کو جگہ نہیں دینا چاہتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت پیٹرول پر تمام سبسڈیز واپس لے لیتی ہے تو اس کی قیمت لگ بھگ 291 روپے فی لیٹر ہو گی۔

غیاث پراچہ نے کہا کہ ہم پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے پیٹرول کی قیمت کے مقابلے میں سی این جی اسٹیشنوں پر 53 فیصد سستا ایندھن فراہم کر سکتے ہیں جس سے سالانہ تقریباً 2.1 ارب ڈالر کے درآمدی بل کی بچت ہو گی، اس سے گردشی قرضے کو کم کرنے میں مدد ملے گی جو توانائی کے شعبے میں 2ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے اور ماحولیات کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

حکومت کے لیے ایسوسی ایشن کی طرف سے تیار کردہ ایک پریزنٹیشن کے مطابق سی این جی سیکٹر کو بحال کرنے سے ملک کی معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لانے اور توانائی اور ایندھن کے موجودہ بحران کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ سی این جی سیکٹر 300 ایم ایم سی ایف ڈی گیس استعمال کرے گا جو کہ ان کے مطابق تقریباً 3.68 ارب لیٹر پیٹرول کے برابر ہے جبکہ یہ سالانہ 152.63 ملین درختوں کے ماحولیاتی فائدے کے برابر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن سی این جی سیکٹر کو ایل این جی درآمد کرنے کی اجازت دینے میں ایک سنگین رکاوٹ ہے، ہم 10-14 ایم ایم سی ایف ڈی کے قریب ایندھن درآمد کریں گے جب کہ حکومتی اہلکار اسے بہت زیادہ قیمتوں یہاں تک کہ 25ڈالر فی ایم ایم سی ایف ڈی تک پر درآمد کرتے ہیں، اس سے پبلک سیکٹر کی نااہلی سامنے آئے گی، اس لیے بیوروکریسی ایل این جی کی درآمد میں کوئی مقابلہ نہیں دیکھنا چاہتی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سابق وفاقی کابینہ کے دو ارکان علی زیدی اور حماد اظہر کے درمیان اقتدار کی کشمکش نے ملک میں نئے ایل این جی ٹرمینلز کی ترقی کو محدود کر دیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ سابق وزیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے ٹیکسٹائل کے شعبے کو تقریباً 6.5 ڈالر فی ایم ایم سی ایف ڈی گیس ٹیرف کی اجازت دی جو 25 ڈالر فی ایم ایم سی ایف ڈی پر خریدی گئی۔

اے پی سی این جی اے کے مرکزی چیئرمین سمیر گلزار نے کہا کہ ملک میں 2ہزار 300 سی این جی اسٹیشنز ہیں جن میں پنجاب میں 1100، سندھ میں 600، خیبر پختونخوا میں 575 اور بلوچستان میں 25 شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کے تقریباً 50 فیصد سی این جی اسٹیشن گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے کام نہیں کررہے لیکن اس صورتحال نے ملک میں مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی این جی سیکٹر میں کٹس سے لے کر گیس اسٹیشنز کے قیام تک 150 ارب روپے تک کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایک وقت تھا کہ ریاست نے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سی این جی سیکٹر میں سرمایہ کاری کی دعوت دی تھی لیکن بعد کی حکومتوں نے اس پالیسی کو ترک کر دیا حالانکہ سی این جی ملک کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کے لیے بھی مالی طور پر فائدہ مند تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں