وزیر اعظم عمران خان نے اپنے گھر کے قرض کے لیے بینکوں میں آنے والے صارفین سے اردو میں گفتگو کرنے پر تمام بینکوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ وہ عوام کی سہولت کے لیے عملے کو شلوار قمیض میں بٹھا دیں۔
وزیر اعظم نے میرا پاکستان، میرا گھر ہاؤسنگ قرضہ اسکیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں یہ بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا کیونکہ تنخواہ دار آدمی کے پاس کبھی اتنے وسائل نہیں کہ وہ اتنی نقد رقم جمع کر کے گھر خرید سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اوورسیز ممالک میں کام کرنے والے غریب پاکستانیوں سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ ہمیشہ اس بات کی خواہش ظاہر کرتے تھے کہ باہر پیسہ کما کر پاکستان میں گھر بنائیں گے لیکن ہماری حکومت کو کبھی ان غریب پاکستانیوں کا احساس نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اگر میں پڑھنے کے بعد انگلینڈ میں نہیں رہتا تو شاید اس بارے میں نہیں سوچتا لیکن انگلینڈ میں ہر تنخواہ دار آدمی مورگیج فنانس کرتا ہے جس میں شرح سود بہت کم ہوتی ہے لہٰذا ان کے لیے تھوڑی تھوڑی رقم دے کر گھر ان کا ہوجاتا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ہاں بننے والی حکومتیں صرف اشرافیہ کے بارے میں سوچتی تھیں، ایک چھوٹا طبقہ امیر ہوتا گیا اور امیر آدمی وہیں کا وہیں رہ گیا اور اس سے ہمارے ملک کو بہت نقصان پہنچا۔
ان کا کہنا تھا کہ چین 30 سے 40سال میں دنیا کی سپر پاور اس لیے بن گیا کیونکہ انہوں نے نچلے طبقے کا معیار زندگی بلند کیا لہٰذا جب ہم امیر اور غریب میں اتنا بڑا فاصلہ پیدا کر لیں گے تو وہ ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا۔
اس موقع پر انہوں نے بینکاری نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہمارے بینک کا ماحول ایسا تھا کہ عام آدمی اندر جاتے ہوئے ڈرتا تھا، پہلے تو انگریزی میں بات کرتے ہیں اور پھر اوپر ست ٹائی پہن لیتے ہیں لہٰذا وہ ایسے ماحول میں خود کو دوسری دنیا سے آیا ہوا محسوس کرتا تھا اور ہمارا نظام ان کو سہولیات فراہم نہیں کرتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب گزشتہ چھ مہینوں میں بینکوں نے خود کو تبدیل کیا ہے اور عام آدمی کو قرضے ملنا شروع ہو گئے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس کو مزید مارکیٹ کریں گے تاکہ مزید لوگ آپ کے پاس آئیں۔
عمران خان نے کہا کہ جیسے ہی لوگوں کو پتہ چلے گا کہ ایک عام آدمی بھی اتنی ہی قسط پر گھر لے سکتا ہے جتنی رقم وہ کرائے کی مد میں ادا کرتا ہے تو اس سے بہت بڑی تبدیلی آئی گی اور سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ اس طبقے کو گھر ملے گا جو اپنے گھر کے لیے ترستا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب بینک لوگوں کو گھر کے لیے قرضے دیں گے تو اس سے ہماری معیشت بہتر ہو گی کیونکہ اس سے تعمریات میں بہت تیزی سے اضافہ ہو گا، اس کی وجہ ہے کہ بہت زیادہ کوگ اپنا گھر بنانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی عام آدمی بینک سے گھر لینا چاہے تو شرح سود اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اس شرح پر قرض نہیں لے سکتا تو ہم نے اس سلسلے میں انہیں سبسڈی دی ہے اور جیسے جیسے معیشت ترقی کرے گی تو ہم اس سبسڈی کو بھی بڑھاتے جائیں گے تاکہ وہ آسان قسطوں میں مہینے کی تنخواہ پر گھر خرید سکیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں بینکوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اب اردو میں بھی بات چیت شروع کردی ہے اور مشورہ دیا کہ غریب عوام کی آسانی کے لیے وہ عملے کو شلوار قمیض میں بٹھا دیں جس سے عوام گھبرائیں گے نہیں۔
20لاکھ قرض لینے والے کو 11ہزار روپے کی قسط دینا ہو گی، رضا باقر
اس سے قبل گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا کہ اس ہاؤسنگ اسکیم کے حوالے سے اسٹیٹ بینک نے بینکوں کے ساتھ نے ایسا نظام بنانے کی کوشش کی جس کے تحت بینک ایسے لوگوں کو قرض دینا شروع کریں جن کو پہلے قرضے نہیں ملتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی حکومت میں وہ کام ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور آپ نے ان گھروں کو خریدنے کے خواہشمند افراد کے لیے شرح سود میں سبسڈی دی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ماہانہ سبسڈی کی بدولت 30لاکھ روپے کا قرض لینے والے کے لیے ماہانہ قسط تقریباً 19ہزار روپے بنتی، اگر کوئی 20لاکھ روپے اک قرض لیتا ہے تو اس کا قرض صرف 11ہزار روپے بنتا ہے، اگر یہ سبسڈی نہ ہوتی تو قرضہ کم از کم 20 گنا زیادہ ہوتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ایک مشکل یہ تھی کہ ہمارا بینک کا عملہ اس طرح تربیت یافتہ نہیں تھا کہ وہ بینکوں کو بتائے کہ اگر آپ کو میرا گھر میرا پاکستان اسکیم میں گھر لینا ہے تو اس کے لیے کیسے درخواست دینی ہے لیکن آج اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم نے 109ارب روپے کی منظوری دے دی ہے جن کا خواب یہ ہے کہ اپنا گھر بنے۔
ان کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اب تک ہمیں اب تک 260ارب کی درخواستیں آئی ہیں اور 32ارب روپے بینک ان لوگوں کو دے چکے ہیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ہر ہفتے بینک سوا 4ارب روپے کے قرض کی منظوری دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ 1.7ارب تقسیم کیے جا رہے ہیں، اس اسکیم کے اوائل میں پہلے چھ مہینے میں صرف 20 ارب کی رقم صارفین کو دی گئی تھی لیکن محض اگلے چھ ماہ کے اندر یہ اعدادوشمار 80ارب تک پہنچ گئے تھے۔