مودی حکومت نے پہلی بار 2016 میں اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن پر پابندی عائد کی تھی جس میں مزید پانچ سال کی توسیع کر دی گئی ہے۔ حکومت کا الزام ہے کہ یہ تنظیم مختلف مذہبی برادریوں کے مابین بدامنی پھیلانے کا کام کرتی ہے۔
بھارتی وزارت داخلہ نے اپنے ایک نئے نوٹیفیکیشن کے ذریعے عالمی شہرت یافتہ مسلم مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ادارے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن (آئی آر ایف) پر عائد پابندی میں مزید پانچ برس کی توسیع کر دی ہے۔ مودی حکومت نے پہلی بار جو پابندی 2016 میں عائد کی تھی، اس کی مدت 17 نومبر کو ختم ہو رہی تھی۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کا تعلق بھارت کے صنعتی شہر ممبئی سے ہے اور انہوں نے اسلامی تبلیغ کے لیے اپنا ادارہ بھی وہیں قائم کیا تھا۔ تاہم وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ان کی تقاریر کو قابل اعتراض اور تخریبی نوعیت کا قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کئی مقدمات دائر کرنے کے علاوہ ان کی تنظیم پر پابندی بھی عائد کر دی تھی۔
بھارتی حکومت نے ذاکر نائیک کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے جو کئی مقدمات دائر کر رکھے ہیں، ان کی تفتیش کے سلسلے میں وہ بھارتی ایجنسیوں کو مطلوب بھی ہیں۔ فی الوقت وہ ملائشیا میں رہتے ہیں، جہاں سے بھارتی حکومت انہیں واپس لانے کی کوششیں بھی کرتی رہی ہے۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
نئی دہلی میں وزارت داخلہ نے اپنے نوٹیفیکیشن میں کہا ہے کہ ذاکر نائیک کی تنظیم آئی آر ایف ایسی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے، جو ملکی سلامتی کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے اور بھارت کے سیکولر ڈھانچے میں خلل ڈالنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
اس دستاویز میں کہا گيا ہے کہ مرکزی حکومت کی رائے میں آئی آر ایف، اس کے بانی اور سربراہ ذاکر عبدالکریم نائیک اپنے پیروکاروں میں ’’مذہبی بنیادوں پر بدامنی پھیلانے، مختلف مذہبی برادریوں اور گروہوں کے درمیان عناد، نفرت یا پھر بد نیتی پر مبنی جذبات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔‘‘
وزارت داخلہ کے مطابق، ’’اگر آئی آر ایف کی غیر قانونی سرگرمیوں کو فوری طور پر روکا اور کنٹرول نہ کیا گیا، تو اسے اپنی تخریبی سرگرمیاں جاری رکھنے اور اپنے ان کارکنوں کو دوبارہ منظم کرنے کا موقع مل جائے گا، جو ابھی تک مفرور ہیں۔ اسی لیے اس پابندی میں توسیع کی گئی ہے۔‘‘
ذاکر نائیک پر پابندی کا معاملہ
بنگلہ بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا کے ایک کیفے میں یکم جولائی 2016 کو ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد بھارتی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا نام سامنے آیا تھا۔ اس حملے میں ملوث دو انتہا پسندوں نے اپنی فیس بک پوسٹس میں لکھا تھا کہ وہ ذاکر نائیک کی تقریروں سے متاثر تھے۔
اس پیش رفت کے بعد ذاکر نائیک پہلے سعودی عرب اور پھر ملائشیا چلے گئے تھے اور اب تک وہیں مقیم ہیں۔ بھارتی وزارت داخلہ نے ممبئی میں ذاکر نائیک کی تنظیم اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن (آئی آر ایف) کو پہلے غیر قانونی قرار دیا تھا اور پھر ذاکر نائیک کا پاسپورٹ منسوخ کر کے ان کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری کر دیے تھے۔ اس کے بعد انہیں مفرور بھی قرار دے دیا گيا تھا۔
بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک اورآئی آر ایف پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور مذہبی منافرت پھیلانے کے الزامات عائد کیے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے خلاف این آئی اے اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے بھی مقدمات درج کر رکھے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام کے حوالے سے اپنی منطقی تقریروں کے لیے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ قوم پرستی، ہم جنس پرستی، اسامہ بن لادن اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر مخصوص طبقات ان کے خیالات کو پسند نہیں کرتے اور بعض افراد ان پر مسلکی منافرت پھیلانے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تقاریر پر ان کے مبینہ طور پر انتہا پسندانہ خیالات کی وجہ سے برطانیہ اور کینیڈا میں پابندی عائد ہے تاہم دنیا کے 125 ممالک میں سیٹلائٹ کے ذریعے ان کے پِیس (امن) ٹی وی کی نشریات دیکھی جاتی ہیں۔ بھارت کی متعدد شدت پسند ہندو تنظیمیں ایک عرصے سے حکومت سے پیس ٹی وی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں۔
جنوبی افریقہ کے معروف عالم احمد دیدات کے شاگرد اور پیشے کے لحاظ سے طبی تعلیم یافتہ ڈاکٹر ذاکر نائیک انگریزی میں بڑی روانی سے اور منطقی انداز میں مختلف ادیان کے تقابلی مطالعے کے ساتھ اپنی بات کرتے ہیں، جس سے بالخصوص مسلم نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ خاصا متاثر ہوتا ہے۔ سن 2015 میں انہیں ‘اسلامی دنیا کا نوبل پرائز‘ قرار دیا جانے والا سعودی عرب کا شاہ فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا تھا اور یونیورسٹی آف گیمبیا انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دے چکی ہے۔