مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان کی جعلی اور قابل اعتراض تصاویر کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں شکایت درج کرانے کے چند گھنٹے بعد ہی وفاقی حکومت حرکت میں آگئی، فحاش اور غیر اخلاقی ویڈیوز کے ذریعےلوگوں کی بدنامی میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق وزیر داخلہ کی جانب سے مسئلے سےمتعلق سخت ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے بھی تشویش کا اظہار کیا کہ وہ اپنے خلاف سوشل میڈیا پر بدنیتی پر مبنی مہم کے خلاف کارروائی کا انتظار کر رہی ہیں۔گزشتہ دنوں ایک ٹوئٹر پیغام میں مریم نواز نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے کی اطلاع حکام کو دے دی ہے اور کارروائی کی منتظر ہیں۔
واضح طور پر فوٹو شاپ کی گئی تصاویر اور ویڈیوز کو کچھ ممتاز ٹوئٹر اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ کچھ نئے بنائے گئے اکاؤنٹس نے بھی شیئر کیا ہے۔
مریم نواز کی جانب سے شکایت درج کرانے اور وزارت داخلہ کی جانب سے ہدایات جاری کرنے کے فوراً بعد ایف آئی اے نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے خبردار کیا کہ ادارے کی جانب سے جعلی ویڈیوز کے خلاف سخت کارروائی کی جارہی ہے۔
ایف آئی اے کے ترجمان کی جانب سے ادارے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سےجاری کردہ پیغام میں کہا گیا کہ ’ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پر چلنے والی جعلی ویڈیوز کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ان ویڈیوز کو بنانے، پھیلانے میں ملوث افراد کے خلاف قید اور جرمانے کی شکل میں سخت قانونی کارروائی کی جائے گی، لوگوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ ان ویڈیوز کو شیئر کرنا بند کر دیں۔
تاہم اگلے روز کارروائی کے حوالے سے کوئی تصدیق نہیں ہوسکی۔
دریں اثنا ماہرین نے ملک کے سائبر کرائم کنٹرول میکنزم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سوشل میڈیا پر ہونے والی خلاف ورزیوں پر مناسب طریقے سے کارروائی کرنے کےلیے منظم طریقہ کار نہیں ۔
ڈیجیٹیل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد نے کہا کہ ’اس کیس میں مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی صرف اس لیے حرکت میں ہے کیونکہ اس بار کسی نے ایک بااثر شخص کے حقوق کی خلاف ورزی شروع کر دی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بالکل پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی کنول شوزب کے کیس کی طرح ہے اور ایف آئی اے نے ان کی شکایت کی فعال انداز میں پیروی کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اہم نکتہ جو حکام کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ وزیر داخلہ کو کیوں مداخلت کرنی پڑی کیونکہ مریم نواز کی طرف سے خود درج کرائی گئی رپورٹ کو ایف آئی اے نے سنجیدگی سے نہیں لیا، لہٰذا لاہور یا کہیں اور کی کسی بھی عام خاتون کا کیا ہوگا، وہ ایف آئی اے پر کیسے دباؤ ڈالے گی۔
نگہت داد سمیت بیشتر ماہرین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو از سر نو تشکیل دے اور اگر آن لائن ہراساں کرنے کے مسئلے کو حل کرنا ہے تو پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کو دوبارہ ڈیزائن کرے۔