آئل انڈسٹری کیلئے 69 ارب روپے کی ادائیگی کی منظوری

نئی تشکیل شدہ وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے ایک نکاتی پہلے اجلاس میں آئل انڈسٹری کو قیمتوں کے فرق کے دعووں (پی ڈی سیز) کی فوری ادائیگی کے لیے 69 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے جس کی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری کی لاگت کے مقابلے میں سستی فروخت ہے۔

رپورٹ  کے مطابق ای سی سی کا اجلاس وفاقی وزیر خزانہ و محصولات مفتاح اسمٰعیل کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ مخدوم سید مرتضیٰ محمود، وفاقی سیکریٹریز اور سینئر افسران نے شرکت کی۔

سرکاری اعلان میں کہا گیا کہ ای سی سی نے اپریل کے مہینے کے لیے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) اور ریفائنریوں کو پی ڈی سی کی تقسیم اور مارچ کے مہینے میں کمی کو پورا کرنے کے لیے 68 ارب 74 کروڑ روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری دی۔

توقع کی جارہی ہے کہ بدھ کو (آج) وفاقی کابینہ سے اس فیصلے کی فوری توثیق کر دی جائے گی تاکہ سپلائی چین میں رکاوٹوں سے بچنے کے لیے جلد از جلد او ایم سیز اور ریفائنریوں کو فنڈز فراہم کیے جا سکیں۔

ای سی سی نے بحث کے بعد مارچ میں کمی کو پورا کرنے اور اپریل میں او ایم سیز اور ریفائنریز کو پی ڈی سی کی تقسیم کے لیے 68 ارب 74 کروڑ روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری دی۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے حکومت کے فیصلے کے تناظر میں قیمت کا فرق حکومت کی جانب سے او ایم سیز اور ریفائنریوں کو سبسڈی کے طور پر ادا کیا جانا ہے۔

بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے رجحان کی وجہ سے اپریل کے مہینے کے لیے سبسڈی کی مقدار مارچ 2022 کے مقابلے میں کافی زیادہ رہی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ پچھلی حکومت نے اپریل 2022 کے پہلے 15 دن کے لیے پی ڈی سیز پر غور نہیں کیا، اس لیے نئی حکومت کو او ایم سیز کے پی ڈی سیز کے طور پر سبسڈی کی زیادہ مقدار کا بوجھ اٹھانا پڑا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ ستمبر 2020 سے تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا تھا اور پچھلی حکومت نے گھریلو صارفین کے لیے قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا تھا۔

تاہم سابق وزیر اعظم نے 28 فروری کو ایک ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جس میں پیٹرول اور ڈیزل کی صارفین کی قیمتوں میں 10 روپے فی لیٹر کی کمی بھی شامل تھی اور مالی سال کے آخر تک یہ قیمتیں منجمد رکھنے کا اعلان بھی کیا تھا۔

نتیجتاً جن مصنوعات کی قیمتیں یکم مارچ کو بڑھنے کا اندازہ لگایا گیا تھا انہیں کم کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں پیٹرول اور ڈیزل پر پیٹرولیم لیوی اور جنرل سیلز ٹیکس کی شرح صفر ہوگئی۔

اس کے علاوہ او ایم سیز اور ریفائنریز کے پی ڈی سیز کا تخمینہ مارچ کے مہینے کے لیے 32 ارب روپے لگایا گیا تھا جس میں یکم نومبر سے 4 نومبر 2021 کے پچھلے بقایا پی ڈی سی بھی شامل تھے، پچھلی حکومت کی ای سی سی اور وفاقی کابینہ نے او ایم سیز کو پی ڈی سیز کی واپسی اور ریفائنریز کے لیے 31 ارب 73 کروڑ کی منظوری دی تھی۔

اجلاس کو یہ بھی بتایا گیا کہ بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا اور اسی وجہ سے اپریل کے پہلے 15 دن کے لیے اضافی پی ڈی سی کی ضرورت کا تخمینہ 32 ارب روپے لگایا گیا تھا جس کے لیے پچھلی حکومت نے پی ڈی سی کی منظوری کے بغیر قیمتیں منجمد رکھی تھیں۔

اس کے علاوہ مزید 35 ارب روپے پی ڈی سی کا تخمینہ اپریل کے اگلے 15 دن (16 اپریل سے 30 اپریل) کے لیے لگایا گیا ہے جس کے لیے نئی حکومت نے قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

اجلاس کو یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ ماہ کے لیے 2 ارب روپے کا شارٹ فال بھی سامنے آیا تھا، اس طرح کُل 69 ارب روپے کی ضرورت ہے۔

اپریل کے پی ڈی سی کے لیے درکار اضافی فنڈز کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف (جو اب تک وزارت توانائی کے انچارج بھی ہیں) سے خصوصی پیشگی منظوری حاصل کی گئی، اس حقیقت کے پیش نظر کہ یہ فنڈز بجٹ میں شامل نہیں کیے گئے۔

آج ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں ادائیگیوں کی باقاعدہ منظوری دی جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں