انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے گذشتہ برس لاگو کیے گئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کو ایک برس ہو چکا ہے اور اب یہ دوبارہ زور پکڑ رہی ہے۔
پیر کو کسانوں نے ملک بھر میں ہڑتال کی اور ہزاروں کسانوں نے دہلی کے اردگرد مرکزی شاہراہوں کو بند کر دیا۔
کسانوں کے اس احتجاج نے ایک برس سے انڈین وزیراعظم کے لیے ایک بڑا سیاسی چیلنج پیدا کیا ہے۔
دہلی کے جنوب مغربی اور مشرقی علاقوں میں کسانوں نے ہائی ہائی ویز کو بند کر دیا ہے اور دہلی کا دوسری ریاستوں کے ساتھ رابطہ کاٹ دیا ہے۔ امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے احتجاج کی تینوں جگہوں پر پولیس تعینات کی گئی ہے۔
کسانوں کی مشترکہ تنظیم یونائیٹڈ فارمرز فرنٹ نے کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دکانوں، دفاتر، فیکٹریوں اور دیگر اداروں کو10 گھنٹے بند رکھنے کی کال دی ہے۔ تاہم تمام ایمرجنسی سروسز کھلی رہیں گی۔
مودی حکومت کا کہنا ہے کہ زرعی قوانین سے زراعت میں جدت آئے گی اور نجی سرمایہ کاری ہوگی۔ تاہم کسانوں کے مطابق ان قوانین سے انہیں اپنی فصل نجی کمپنیوں کو سستے داموں فروخت کرنا پڑے گی۔
گذشتہ برس پنجاب سے شروع ہونے والا احتجاج کا سلسلہ دیگر ریاستوں ہریانہ، بہار اور کیرالہ تک پہنچ چکا ہے۔
انڈیا میں کانگریس سمیت اپوزیشن کی جماعتیں کسانوں کی حمایت کر رہی ہیں۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے ہیں، لیکن یہ مذاکرات ناکام رہے ہیں۔
کسانوں کی تحریک مجموعی طور پر پُرامن رہی ہے، لیکن جنوری میں انہوں نے دہلی کے لال قلعے پر چڑھائی کی تھی۔ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک ہوا تھا اور درجنوں زخمی ہوئے تھے