انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ معیشت نہیں سنبھلے گی، مفتاح اسمٰعیل

وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ ملک کے انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ورنہ معیشت سنبھل نہیں سکے گی۔

اسلام آباد میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب اور وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ہم نے انتہائی مشکل وقت میں بجٹ پیش کیا ہے جب پاکستان ایک مشکل گھڑی میں کھڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے گزشتہ 30 برسوں میں اس سے زیادہ گھمبیر وقت کبھی نہیں دیکھا جہاں ایک جانب عالمی سطح پر چیلنجز کا سامنا ہے اور دوسری جانب حکومت یا انتظامیہ کی جانب سے مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ترقی اور مہنگائی ہمارا ہدف ہے لیکن ہمارا پہلا ہدف مالیاتی استحکام کا حصول اور ملک کو اس راستے سے ہٹانا ہے جہاں عمران خان چھوڑ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا دوسرا ہدف اپنے غریب لوگوں کو ریلیف دینا ہے جس کے لیے ہم مشکل فیصلے لے رہے ہیں، حکومت ملک کے معاشی معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ملک کو سری لنکا جیسی صورتحال کا سامنا نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں حکومت نے بجلی کے محکمے کے لیے 1100 ارب روپے سے زائد کی سبسڈی دی ہے، ہم کنزیومرز کو 100 ارب یونٹ بنا کر پہنچاتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ہم نے بجلی پر 11 روپے فی یونٹ سبسڈی دی ہے۔

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ سبسڈی کے باوجود بجلی مہنگی ہونے کی وجہ بےانتظامی ہے، بجلے کے ریٹ طے کرنے کے نظام میں سقم ہے، ٹرانسمیشن ڈسٹریبیوشن لاسس ناقابل برداشت حد تک بلند ہیں، بل کلیکشن کا ریٹ بہت کم ہے، گزشتہ 3، 4 برسوں میں اس پر بہت کم کام ہوا ہے، ملکی معیشت اس قدر نقصان کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے کہا کہ گیس کے شعبے میں 400 ارب روپے کی سبسڈی رواں مالی سال میں دی گئی ہے، یہ 400 ارب روپے کا نقصان ایک جانب ہے جبکہ دوسری جانب گیس میں 1400 ارب روپے کا سرکولر ڈیٹ ہے، ایس این جی پی ایل نے گزشتہ 2 برسوں میں 200 ارب روپے کا نقصان کیا، 20 ڈالر کی گیس خرید کر 2 ڈالر میں بیچی جائے تو ملک پیسا کہاں سے لائے گا؟

وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر ہم نے انڈسٹریز کو گیس دینے کا وعدہ کیا ہے تو یہ بات واضح ہے کہ ہم ان کو گیس ضرور دیں گے اور اگر بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں سستی گیس مل رہی ہوگی تو ہم اپنے لوگوں کو مہنگی گیس نہیں دے سکتے، لیکن ہمیں سبسڈیز اور نقصان کو بھی دیکھنا ہوگا۔

مفتاح اسمٰعیل نے بتایا کہ وزیراعظم اکثر کہتے تھے کہ بینکنگ کمپنیز کی طرح آئل مارکیٹنگ کمپنیز پر بھی ٹیکس بڑھا دیں مگر میں ہمیشہ کہتا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے، تاہم ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایس این جی پی ایل ہر سال 2.4 ارب روپے کی گیس ہوا میں اڑا دیتی ہے، اس لیے میں کہا رہا ہوں کہ ملک کے انتظامی معاملات کو ٹھیک کرنا ہوگا ورنہ ملک کی معیشت نہیں چلے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت مشکل فیصلوں کے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں ہے، یہ بجٹ بھی اس کی کڑی ہے، اس سال کے بجٹ میں 4 کھرب 598 ارب کا خسارہ آرہا ہے، تاریخ کے 4 بڑے بجٹ خسارے عمران خان کے دور حکومت میں ہوئے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ جس سال میں چھوڑ کر گیا تھا اس سال ہم نے 1499 ارب روپے قرجوں کی ادائیگی کی مد میں رکھے تھے، اس سال ہم نے قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 3 ہزار 950 ارب روپے کا تخمینہ رکھا ہے، یعنی آپ صرف قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 2500 ارب روپیہ اور دے رہے ہیں، یہ 2 دفاعی بجٹ کے برابر ہوگیا۔

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ملک میں ہم 7 ہزار 4 ارب روپے ٹیکس جمع کریں گے، نان ٹیکس ریونیو 2 ہزار ارب ہوجائے گا، 4 ہزار ارب روپیہ ہم صوبوں کو دے دیں گے، قرضوں کی ادائیگی میں ہمیں 4 ہزار ارب دینا ہوگا، اس کے بعد صرف ایک ہزار ارب روپے رہ جائیں گے جس میں ہمیں حکومت بھی چلانی ہے، سببسڈیز بھی دینی ہیں اور اس کے بعد گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور اسلام آباد کو بھی پیسے وفاق نے دینے ہیں جوکہ صوبوں کے بجٹ سے دیا جانے چاہیے لیکن وفاق ادا کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں ہمیں ملک کو آگے لے کر چلنا ہے، میں اب بھی یقین سے کہتا ہوں کہ اس ملک کے جتنے وسائل ہیں اس کا 5 فیصد بھی استعمال نہیں کیا جارہا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش سے ہم پیچھے رہ گئے ہیں جن سے ہم ماضی مں آگے ہوتے تھے، ہمارے اس نہج پر پہنچنے کی وجہ محض بے انتظامی ہے۔

مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ 25 لاکھ دکانداروں کو اس سال ٹیکس نیٹ میں لے کر آئیں گے، ملک کے انتظامی امور میں بہتری نہ لائی گئی تو ملک کا چلنا مشکل ہے، ہم دوسرے ممالک کے پاس جا جا کر مالی امداد مانگ رہے ہوتے ہیں۔

انہوں نے میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم انتظامی صورتحال پر قابو پائیں گے، میں میڈیا سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ اگر ہم مشکل فیصلے کریں تو ایک ایک چیز پر نہ چلائیں، اگر ہم پیٹرول مہنگا کرتے ہیں تو پیسے میں گھر نہیں لے کر جاتا قومی خزانے میں ہی جمع ہوتے ہیں۔

انہوں نے پریس کانفرنس میں موجود صحافیوں کو بتایا کہ انہیں اور وفاقی کابینہ میں شامل افراد کو مراعات حاصل ہیں لیکن عام آدمی کے لیے ایسا نہیں ہے، اگر سری لنکا جیسا حال ہوا تو قوم اور تاریخ معاف نہیں کرے گی اور ضمیر بھی معاف نہیں کرے گا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا بجٹ میں کوشش کی ہے کہ امیروں سے زیادہ حصہ لیں اور عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے، خوردنی تیل بہت مہنگا ہوگیا ہے اس لیے آئل سیڈز پر مراعات دے ہیں لیکن اس سال میں ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ تیل کی قیمتیں کم ہوں گی۔

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ایندھن پر سبسڈی دینا اب کوئی آپشن نہیں رہا کیونکہ اس سے بالآخر سود اور مہنگائی بڑھے گی جس سے قرض لینا مشکل ہو جائے گا۔

انہوں نے واضح کیا کہ نئے بجٹ میں فاٹا پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا البتہ گزشتہ حکومت نے 2018 میں ٹیکس لگایاگیا تو جو 2021 میں واپس لے لیا گیا۔

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ خسارے کو کم کرنے کے لیے مالیاتی پالیسی کو سخت کیا جائے گا، ہم نے پرسنل انکم ٹیکس کو کم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن آئی ایم ایف خوش نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی تازہ ترین تجاویز زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے بنائی گئی ہیں، تاہم ان اقدامات پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے گی، وزیر اعظم نے کچھ تجاویز کو مسترد بھی کیا ہے اس لیے آئندہ 15 روز میں کچھ تبدیلیاں ہوں گی۔

مفتاح اسماعیل نے کہا کہ میں عمران خان کی طرح نہیں کہ پچھلی حکومت پر کیسز کروں، عمران خان نے 4 سال صرف ہم پر کیسز بنانے میں ضائع کیے اور ملک کو اس نہج پر لے آئے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں بگاڑ کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ عمران خان اور ان کی ٹیم نااہل تھی بلکہ ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے بہت سے لوگ خورد برد میں ملوث تھے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم سب نے راولپنڈی رنگ روڈ سے متعلق باتیں سن لیں، یہ بھی معلوم ہے کہ 48 روپے کی چینی بیچ کر 96 روپے بولا گیا، سب کے علم میں ہے کس طرح رشوت کو تحائف کی صورت دیا جاتا تھا، اگر میں بھی عمران خان کی طرح سب چھوڑ کر ان لوگوں پر کیسز بنانے میں لگ جاؤں تو میرا کام کون کرے گا۔

اس موقع پر ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں لوگوں پر کم سے کم بوجھ ڈالنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے اور اس حوالے سے بجٹ میں بہت سے اقدامات ہیں۔

انہوں نے بجٹ میں مہنگائی کے خلاف کوئی اقدامات نہ ہونے کی شکایات کا ازالہ کرتے ہوئے سوال کیا ’کیا ہم انٹرنیشنل سائیکل کو تبدیل کر سکتے ہیں؟ لیکن ہم نے وہ کیا جو ہمارے اختیار میں تھا، ہم نے اِن ڈائریکٹ ٹیکس نہیں بڑھایا اور نہ ہی زراعت پر ٹیکس لگایا‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں