افغانستان پر طالبان کے قبضے کی پہلی سالگرہ پر جو بائیڈن انتظامیہ نے کابل میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ منجمد افغان فنڈز میں ساڑھے 3 ارب ڈالر جاری نہیں کرے گی۔
خبروں کے مطابق نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ ‘ایک امریکی عہدیدار نے کہا کہ امریکا اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ یہ رقم دہشت گردوں کے ہاتھ میں نہیں جائے گی، اس لیے اس نے اسے جلد جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے’۔
افغانستان کے لیے محکمہ خارجہ کے خصوصی نمائندے ٹام ویسٹ نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ وہ ‘افغان مرکزی بینک میں سرمایے کی دوبارہ آمد کو ایک قریب المدت آپشن کے طور پر نہیں دیکھتے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کی جانب سے ‘القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو پناہ دینے سے دہشت گرد گروپوں کو فنڈز کی منتقلی کے حوالے سے ہمارے گہرے خدشات کو تقویت ملتی ہے۔’
قومی سلامتی کونسل (این ایس سی) کے ترجمان نے سی این این کو بتایا کہ افغان عوام کو فنڈز حاصل کرنے کی کوششوں میں ‘کوئی تبدیلی نہیں آئی’ لیکن ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی کا براہ راست اثر اس بات پر پڑا ہے کہ انتظامیہ طالبان کے ساتھ کیسے نمٹتی ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے دوحہ معاہدے کی صریح خلاف ورزی کے حالیہ انکشافات طالبان کے ساتھ ہمارے معاملات میں نظر رکھنے کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں، ان اثاثوں کے مستقبل کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر اس حقیقت کی عکاسی کرتا رہے گا۔
نیویارک ٹائمز نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے ‘طالبان ملیشیا کے افغانستان پر قبضے کی ایک سال مکمل ہونے پر اور ایک امریکی ڈرون حملے میں ایمن الظواہری کی ہلاکت کے صرف دو ہفتے بعد فنڈز کے بارے میں اپنی پوزیشن کا خاکہ پیش کردیا’۔
ٹام ویسٹ نے نشاندہی کی کہ امریکی حکام نے مرکزی بینک کے ساتھ کئی مہینوں تک بات چیت کی کہ افغانستان کی معیشت کو کس طرح آگے بڑھایا جائے لیکن اس بات کی ٹھوس ضمانتیں حاصل نہیں کرسکے کہ یہ رقم دہشت گردوں کے ہاتھوں میں نہیں جائے گی۔
والا اسٹریٹ جنرل کے مطابق ٹام ویسٹ نے مزید کہا کہ ‘ہمیں یقین نہیں ہے کہ اس ادارے کے پاس ذمہ داری سے اثاثوں کا انتظام کرنے کے لیے حفاظتی انتظامات اور نگرانی موجود ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ طالبان کی جانب سے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو پناہ دینے سے دہشت گرد گروپوں کو فنڈز کی منتقلی کے حوالے سے ہمارے خدشات کو تقویت ملتی ہے۔’
محکمہ خارجہ کی ایک نیوز بریفنگ میں ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ انتظامیہ ایسے وقت میں افغانوں کی مدد کے لیے رقم استعمال کرنے کے متبادل طریقے تلاش کر رہی ہے جب لاکھوں افراد بھوک کے بڑھتے ہوئے بحران سے دوچار ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ نے نوٹ کیا کہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے ایک سال بعد ‘بائیڈن انتظامیہ افغانستان کو بہت کم فائدہ ہے کیونکہ وہ ضرورت مند افغانوں کی مدد کرنے، امریکی اتحادیوں کو نکالنے اور ایک ایسی قوم میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کر رہی ہے جہاں کبھی اس کا بے مثال اثر تھا’۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ امریکی حکام اب ‘قطر اور متحدہ عرب امارات سمیت اسلامی تنظیموں اور اقوام کے ساتھ کام کر رہے ہیں کیونکہ وہ طالبان حکومت پر اثر انداز ہونے کے لیے ان کے پاس موجود چند ٹولز یعنی پابندیوں، سفری پابندیوں اور ممکنہ سفارتی شناخت کے وعدے کا استعمال دہشت گرد حملوں کو روکنے، امریکا سے منسلک افغانوں کو ہجرت کرنے میں مدد دینے اور ایک امریکی یرغمالی کی بازیابی کی امید میں کرنا چاہتے ہیں۔