اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سخت مؤقف کے باوجود ایران کے جوہری معاہدے میں دوبارہ جان ڈالنے کے لیے واشنگٹن اور تہران کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے سمجھوتے کا امکان ہے۔
اصلاح پسند اخبار ‘شارغ’ کے ایڈیٹر مہدی رحمانین کا کہنا تھا کہ ‘ویانا مذاکرات یقینی طور پر دوبارہ شروع ہوں گے اور عملی شکل اختیار کریں گے کیونکہ دونوں فریقین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ موجودہ لائحہ عمل جاری نہیں رکھا جاسکتے’۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ایران کے اقوام متحدہ کے جوہری نگرانوں کے ساتھ 12 ستمبر کو ہونے والے معاہدے پر قدامت پسندوں کی جانب سے خاطر خواہ تنقید نہیں کی گئی، جو ایران کے سابق اعتدال پسند صدر حسن روحانی کے اس طرح کے اعلان کے بالکل برعکس ہے۔
معاہدہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے معائنہ کاروں کو نگرانی کے آلات اور ایرانی نیوکلیئر سہولیات میں سروس کیمروں تک رسائی دیتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران کے نئے قدامت پسند صدر ابراہیم رئیسی نے جوہری معاہدے کی بحالی کی حمایت میں آواز بلند کی حالانکہ وہ امریکا کو جھڑک چکے ہیں۔
ان کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن نے اپنے خطاب میں جوہری معاہدے میں واپسی اور پابندیاں ختم کرنے کی خواہش کی تجدید کی، لیکن اس بات پر قائم رہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
ابراہیم رئیسی کے خطاب کے چند گھنٹے قبل ہی نیویارک میں موجود ایرانی عہدیداران نے باقاعدہ تاریخ دیے بغیر کہا کہ ‘آئندہ ہفتوں میں’ جوہری مذاکرات دوبارہ بحال ہوں گے۔
بدھ کو اس بات کی تصدیق اس وقت ہوگئی جب یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے انہیں یقین دہانی کروائی ہے کہ تہران ‘جلد از جلد’ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کو تیار ہے۔
ایران اور 2015 کے جوہری معاہدے کے دیگر پانچ شراکت دار ممالک چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ کے درمیان اپریل میں شروع ہونے والے مذاکرات کا مقصد معاہدے میں امریکا کو دوبارہ شامل کرنا تھا۔
تاہم مذاکرات جون میں ابراہیم رئیسی کے صدارتی انتخاب جتنے کے بعد سے تعطل کا شکار ہیں۔
ایرانی تجزیہ کار سعید لیلاز نے کہا کہ ‘افغانستان سے امریکی انخلا سمیت دیگر علاقائی پیش رفت پر بھی غور کرنا چاہیے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘جغرافیائی نقطہ نظر سے ایران اور امریکا کو سمجھوتے کی ضرورت ہے لیکن ہر ایک پہلے قدم کے لیے دوسرے کو آگے کرنا چاہتا ہے’۔
اس کی مثال ایرانی اخبار ‘شارغ’ کے پہلے صفحے پر شائع ہونے والی دو تصاویر ہیں جس میں ایک میں جو بائیڈن اعلان کر رہی ہیں کہ ‘اگر تہران ایسا کرتا ہے تو ہم معاہدے میں واپس آنے کے لیے تیار ہیں’ جبکہ دوسری تصویر میں ابراہیم رئیسی نے جواب دیا کہ ‘ہمیں امریکا کے وعدوں پر اعتبار نہیں ہے’۔
اقوام متحدہ کا ادارہ جوہری معاہدے کی نگرانی کر رہا ہے اور معاہدے کے ذریعے ایران کو جوہری پروگرام پر سخت کنٹرول کے بدلے پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔
تاہم امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں معاہدے سے یکطرفہ طور پردستبردار ہوگئے تھے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھی، نتیجتاً تہران نے آہستہ آہستہ جوہری معاہدے سے متعلق اکثر وعدوں کی خلاف ورزی شروع کردی تھی۔
جو بائیڈن نے معاہدے میں واپسی کا اشارہ دیا تھا اور جواب میں ایران یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ انہیں مذاکرات کرنے کی کوئی جلدی نہیں اور وہ اپنی شرائط پر ہی آگے بڑھیں گے