اسلام آباد ہائیکورٹ کا بلوچ طلبہ کی نسلی پروفائلنگ کا عمل ختم کرنے کی ہدایت

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت دی ہے کہ ’بلوچ طلبہ کے ساتھ نسلی پروفائلنگ کا عمل ختم کرنے کی کارروائی یقینی بنائی جائے‘۔

چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے انسانی حقوق کی علمبردار اور وکیل ایمان زینب حاضر کی جانب سے بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے کے خلاف دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران مذکورہ ہدایت جاری کی۔

خیال رہے کہ بلوچ طلبہ کی جانب سے اپنے ساتھی حفیظ بلوچ کی گمشدگی پر گزشتہ ماہ سے اسلام آباد میں احتجاج کیا جارہا ہے۔

گزشتہ سماعت میں جسٹس اطہر من اللہ نے صدر عارف علوی سے کہا تھا کہ بلوچ طلبہ کی نسلی پروفائلنگ کا تاثر ختم کریں۔آج ہونے والی سماعت کے دوران وکیل ایمان زینب حاضر نے عدالت کو بتایا کہ صدر عارف علوی نے طلبہ کو یقین دہانی کروائی تھی تاہم اسلام آباد میں واقع نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوجز کے طالب علم بیبگر امداد کو گزشتہ روز پنجاب یونیورسٹی سے اٹھایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر دلدار بلوچ نامی ایک اور طالب علم کو کراچی سےاٹھایا گیا۔

وکیل نے کہا کہ ’ ایسا لگتا ہے کہ حکومت بلوچ طلبہ سے متعلق معاملات کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہے‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو تمام جامعات کو نوٹس جاری کرنا چاہیے کہ بلوچ طلبہ کو ہراساں نہ کیا جائے۔

ایمان زینب حاضر نے عدالت کو بتایا کہ صدر کے بلوچ طلبہ سے دو ملاقاتیں کی ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ’صدر عارف علوی نے کیا کیا؟ یہ حقیقی مسائل ہیں حکومت نے اسے نظر انداز کردیا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ اس معاملے کا ذمہ دار کون ہے، جس پر ایمان حاضر کا کہنا تھا کہ تھا چیف ایگزیکٹو اور متعلقہ ادارے اس کے ذمہ دار ہیں۔

چیف جسٹس نے بات دہراتے ہوئے کہا کہ مسئلہ حقیقی ہے لیکن سیاسی رہنما اسے نظر انداز کر رہے ہیں، اگر نسلی پروفائلنگ کے کیسز سامنے آرہے ہیں تو وزارتِ انسانی حقوق کو چاہیے کہ اسے روکے، یہ نہ کہیں کہ ریاست کمزور ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ وزارت انسانی حقوق کیوں ہے؟ سابقہ حکومت میں کچھ ہوا نہ اس حکومت نے معاملے پر کچھ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ یہ نہ کہیں کہ یہاں امن و امان کی صورتحال برقرار ہے، طلبہ اس سےکیوں متاثر ہورہے ہیں؟‘

جسٹس اطہر من اللہ نے سیاسی جماعتوں کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ اقتدار میں آتے ہیں تو بیان مختلف ہوتا ہے، وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔

اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب شاہ نے نئی حکومت کی ہدایت حاصل کرنے کے لیے عدالت سے مہلت طلب کرلی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ آپ حکومت کو لکھ سکتے ہیں کہ ریاست کمزور ہے، اور ان سے پوچھیں وہ کس طرح انسانی حقوق کی خلاف کو برداشت کر سکتے ہیں، یہ وفاقی حکومت کا کام ہے، یہ انسانی حقوق کی وزارت کا کام ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے حال ہی میں بلوچستان کا دورہ کیا تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ وفاقی دارالحکومت ہے یہاں فروری سے بلوچ طلبہ سے متعلق درخواست زیر سماعت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ یہ طلبہ ہمارا مستقبل ہیں، کیا عدالت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اپنی آنکھیں بند کر لینی چاہئیں، کیا کابینہ کو علم نہیں ہے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے، کیا جو اس وقت کابینہ میں ہیں کل ان کے پاس جا نہیں رہے تھے؟ کیا ان کو نہیں پتا؟

انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں یہ سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ حل تلاش کریں۔

دوران سماعت قائد اعظم یونیورسٹی کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں جو میجر شامل ہے وزارت دفاع نے اس سے متعلق کیا کیا اس کی رپورٹ منگوا لی جائے

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبہ کی نسلی پروفائلنگ اور ہراساں کرنے کی شکایات دور کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری داخلہ میکنرم بنائیں تاکہ بلوچ طلبہ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کو روکا جائے۔

پنجاب یونیورسٹی سے بلوچ طالبعلم کی گمشدگی

گزشتہ روز پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے بیبگر امداد نامی بلوچ طالب علم کو اٹھایا گیا، مبینہ طور پر اس کا تعلق جامعہ کراچی میں ہونے والے دھماکے سے بتایا گیا۔

بیبگر نمل یونیورسٹی اسلام آباد میں انگلش لٹریچر میں ساتویں سمسٹر کے طالب علم ہیں اور ان کا تعلق کیچ سے ہے، ان کے رشتہ داروں نے ہاسٹل نمبر 7 کا دورہ کیا تھا۔

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک طالب علم نے ڈان کو بتایا کہ سیکیورٹی اداروں کو شک ہے کہ امداد کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والے دھماکے میں ملوث ہے، جس میں چینی باشندے ہلاک ہوئے تھے جبکہ دیگر 4 زخمی ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے امداد کو گرفتار کرنے میں مزاحمت کی لیکن اہلکاروں نے انہیں دور رہنے کے لیے کہا اور کہا کہ اگر ملزم دھماکے میں ملوث نہ ہوا تو اسے شام تک رہا کردیا جائےگا۔

انہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے اسے رہا نہیں کیا گیا ہے۔

بلوچ طلبہ کے وکیل نے اس واقعے کو ملک میں ’بلوچ طلبہ گمشدگیوں اور انہیں ہراساں کرنے کا تسلسل قرار دیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ طلبہ کو تعلیمی اداروں سےاٹھایا جارہا ہے اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو بلوچ طلبہ تعلیم حاصل کرنا چھوڑ دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ بھی بلوچ طلبہ کو تفصیلات کے نام پر پریشان کررہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں