اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو اے آر وائی نیوز کے اینکر ارشد شریف اور دیگر صحافیوں کو ہراساں کرنے سے روکتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نجی ٹی وی سے منسلک صحافی ارشد شریف کی درخواست پر سماعت کی جہاں درخواست گزار کے وکیل فیصل چوہدری پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل فیصل چوہدری سے استفسار کیا کہ مسئلہ کیا ہے، جس پر وکیل بتایا کہ ارشد شریف کا کل رات کو مجھے فون آیا اور بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب سے متعلق رپورٹ ارشد شریف نے بریک کی تھی۔
وکیل نے بتایا کہ کل رات سول وردی میں ارشد شریف کے گھر لوگ گئے اور کل رات سے ہی ارشد شریف سے میرا براہ راست رابطہ نہیں ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صابر شاکر کے خلاف بھی غیر قانونی کارروائی شروع کی جا رہی ہے، مریم نواز اور سعد رفیق کی ٹویٹس ان کارروائیوں کے حوالے سے آچکی ہیں۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ ارشد شریف کی جانب سے گزشتہ رات مجھے ہدایت ملی تھی کہ درخواست دائر کروں۔
عدالت نے کہا کہ درخواست گزار نے شک کا اظہار کیا ہے کہ ایف آئی اے غیر قانونی طور پر ارشد شریف کو حراست میں لینا چاہتی ہے، ایف آئی اے ارشد شریف یا کسی بھی صحافی کو ہراساں نہ کرے۔
عدالت نے ڈی جی ایف اے محمد طاہر رائے اور آئی جی اسلام آباد محمد احسن یونس کو کل کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کے مجاز افسران کل ساڑھے 10 بجے پیش ہوں اور وضاحت کریں کیوں ارشد شریف کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کر دی۔
قبل ازیں اینکر پرسن معید پیرزادہ نے الزام عائد کیا تھا کہ ایف آئی اکے سادہ لباس اہلکاروں نے ارشد شریف کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر ایف آئی اے کے پاس کیس ہے تو اس کو نوٹس بھیج دینا چاہیے، عدالتوں کو دیکھنے دیں، ریاستی اداروں کو جرائم پیشہ افراد کی طرح کام نہیں کرنا چاہیے’۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ کئی صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور نشانہ بنایا جارہا ہے۔سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ارشد شریف نے اونچ نیچ دیکھی ہے لیکن حقائق پیش کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا اور اسی لیے جن کو وہ بے نقاب کرتے ہیں ان کو تکلیف ہوتی ہے۔صحافی مظہر عباس سمیت صحافیوں نے مذکورہ واقعے کی مذمت کی۔
ایف آئی اے اور حکومت کا ردعمل
دوسری جانب ایف آئی اے نے اپنے بیان میں کہا کہ ارشد شریف کو نہ تو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی ہراساں کیا گیا اور خبر کو جھوٹی قرار دیتے ہوئے رد کردیا۔
بیان میں کہا کہ ادارے کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، جو افسوس ناک ہے اور ملزمان کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی کا انتباہ کیا۔
وزیراطلاعات مریم اورنگ زیب نے ارشد شریف کو ہراساں کیے جانے کی رپورٹ کو حکومت کے خلاف مذموم پروپیگنڈا قرار دیا۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کےمطابق انہوں نے کہا کہ حکومت معاشی مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہے اور انتقام لینے کے بجائے عوامی فلاح کے لیے کام کر رہی ہے۔