اسلام آباد کی احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کر دیے۔
عدالت نے رواں سال مئی میں ان کی گرفتاری کے لیے دائمی وارنٹ جاری کیے تھے، اسحٰق ڈار پر اپنے معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے، انہیں 2017 میں اس کیس میں مفرور قرار دیا گیا تھا جب وہ بدعنوانی کے مقدمے میں پیش ہونے میں ناکام رہے تھے۔
تاہم گزشتہ ماہ جب اسحٰق ڈار عدالت میں پیش ہوئے اور مقدمے کا سامنا کرنے کا حلف دیا تو عدالت نے اپنا حکم محفوظ کرلیا تھا، عدالت نے وارنٹ گرفتاری بھی معطل کرتے ہوئے وزیر خزانہ کو قانون کے سامنے پیش ہونے کے لیے 15 روز کا وقت دیا تھا۔
آج کی سماعت کے دوران عدالت نے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرتے ہوئے وزیر کو 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی۔
مزید برآں عدالت نے وزیر خزانہ کی جانب سے دائر دو درخواستوں پر قومی احتساب بیورو (نیب) کو نوٹس بھی جاری کیا، جس نے اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔
اپنی درخواستوں میں اسحٰق ڈار نے سماعتوں میں حاضری سے مستقل استثنیٰ کی درخواست کی اور اپنی کی جائیداد کی ضبطی کو چیلنج کیا تھا۔
عدالت نے نیب کو 12 اکتوبر تک درخواستوں پر جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔
سماعت کے دوران اسحٰق ڈار خود احتساب عدالت میں پیش ہوئے جس پر ان کے وکیل نے گرفتاری مستقل طور پر منسوخ کرنے کی استدعا کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے خود بھی اسحٰق ڈار کی گرفتاری کے کوئی وارنٹ جاری کیے تھے؟ جس پر تفتیشی افسر نادر عباس نے عدالت کو بتایا کہ وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے تاہم بعد میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔
دورانِ سماعت اسحٰق ڈار کے وکیل قاضی مصباح نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے صرف وزیر خزانہ کی پیشی کے لیے وارنٹ جاری کیے تھے۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے دریافت کیا کہ اب آپ کا کیا مؤقف ہے؟ وارنٹ منسوخ کیے جائیں یا نہیں؟
نیب پراسیکیوٹر نے جواب میں وارنٹ منسوخ کرنے کی حمایت کی اور کہا کہ وارنٹ صرف ان کی پیشی کے لیے جاری کیے گئے تھے۔
مزید برآں وکیل قاضی مصباح نے عدالت کو بتایا کہ اسحٰق ڈار کو ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے بیرون ملک جانا ہے، ساتھ ہی انہوں نے وارنٹ منسوخی کی استدعا کی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ایک عبوری ریفرنس بھی دائر کیا گیا ہے جس کے تحت دوبارہ فرد جرم عائد کرنا ہوگی۔
اسحٰق ڈار کے وکیل نے عدالت کی اس آبزرویشن کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہم اس پر دلائل پیش کریں گے، عبوری ریفرنس کی کوئی بنیاد نہیں ہے’۔
بعد ازاں عدالت نے اسحٰق ڈار کے وارنٹ منسوخ کرتے ہوئے نیب سے ان کی دو درخواستوں پر 12 اکتوبر کو اگلی سماعت تک جواب طلب کرلیا۔
آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید کی درخواست پر 28 جولائی 2017 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف 3 اور اس وقت کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
نیب نے اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی میں اضافے کے علاوہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ہارٹ اسٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگز، کیونٹ ایٹن پلیس، کیونٹ سولین لمیٹڈ، کیونٹ لمیٹڈ، فلیگ شپ سیکیورٹیز لمیٹڈ، کومبر انکارپوریشن اور کیپیٹل ایف زیڈ ای سمیت 16 اثاثہ جات کی تفتیش کی۔
اس کے بعد ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا۔
اسحٰق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں دفعہ 14 سی لگائی گئی تھی، یہ دفعہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے، جس کی تصدیق ہونے کے بعد 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس میں نیب نے الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے اپنے نام پر یا ان پر انحصار کرنے والے افراد کے نام پر اثاثے اور مالی فوائد حاصل کر رکھے ہیں، جن کی مالیت 83 کروڑ 16 لاکھ 78 ہزار روپے ہے۔
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے اثاثہ معلوم ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔
بعد ازاں اس وقت کی حکومت نے اسحٰق ڈار سے خزانہ کی وزارت واپس لے لی تھی۔
عدالت نے 14 نومبر 2017 کو ریفرنس کے حوالے سے اسحٰق ڈار کے بیٹے کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے۔
عدالت نے اسحٰق ڈار کو مذکورہ کیس میں ٹرائل میں پیش ہونے سے ناکامی پر 11 دسمبر 2017 کو مفرور قرار دے دیا تھا۔