اسرائیل میں ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے 1.5 ارب ڈالرز مختص

تل ابیب: اسرائیلی حکومت نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے لیے درکار ضروری سامان اور لازمی فوجی صلاحیت کے حصول کی خاطر 1.5 ارب ڈالرز کی خطیر رقم مختص کردی ہے۔

گلوبلی 24 اور دی ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیلی حکومت نے فوج کے لیے جو خطیر رقم مختص کی ہے اس سے صرف ایسے جنگی طیارے و ڈرونز خریدے جائیں گے جو ایران کی ایٹمی صلاحیتوں کو باآسانی نشانہ بنا سکیں۔

مختص رقم خفیہ معلومات کے حصول پر بھی خرچ ہو سکے گی اور ایسے ہتھیاروں کی خریداری بھی ممکن ہو گی جو ایران کی زیر زمین سرگرمیوں کو ٹارگٹ کرنے میں معاون و مدد گار ثابت ہوں۔

خبر رساں اداروں کے مطابق اسرائیل نے یہ رقم موجودہ اور آئندہ سال کے بجٹوں میں مختص کی ہے۔ اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ رواں سال بجٹ میں سے 60 فی صد فراہم کیا جائے گا جب کہ آئندہ سال کے بجٹ میں سے 40 فیصد فراہمی ممکن ہو گی۔

اس حوالے سے جریدوں کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب امریکہ نے GBU-72 بموں کے کامیاب تجربات کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

واضح رہے کہ یہ بم زیر زمین اور انتہائی مضبوط عمارتوں کو تباہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان بموں کو F-15 ایگل بمبار طیاروں سے بھی گرایا جا سکتا ہے۔

حیرت انگیز امر ہے کہ اسرائیلی رپورٹ میں اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ بم ایرانی ایٹمی سائٹس پر حملے میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ اسرائیل کے پاس F-15 Strike Eagle طیارے نہیں ہیں جو GBU-72 جیسے بموں کو لے جاسکیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے 2009 میں خفیہ طورپر اسرائیل کو چھوٹے ماڈل کے’GBU-28‘ بم فروخت کیے تھے تاہم ان کی صلاحیتوں کی بابت کچھ زیادہ علم نہیں ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق GBU-72 بموں کے نئے امریکی تجربات ایران کے لیے وارننگ بھی ہو سکتی ہے تاکہ تہران کو ویانا مذاکرات میں سنجیدگی کے ساتھ شرکت پر مجبور کیا جاسکے۔

اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ ماہ اسرائیل کے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے کہا تھا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ الفاظ سینٹری فیوجزکو نہیں روک سکتے لیکن ہم خود ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکیں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں یہ خبریں بھی منظر عام پر آئی تھیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے قومی سلامتی مشیران کی زیر صدارت انتہائی اہم خفیہ مذاکرات ہوئے ہیں جس میں ایران کے حوالے سے پلان بی پر بھی غور و خوص کیا گیا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں