عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ناکام 4 سالہ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) قرض پروگرام کو ’کھویا ہوا موقع‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شوکت ترین اور اسحٰق ڈار کی معاشی سرپرستی میں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی حکومتوں نے غیر ذمہ دارانہ طور پر بجٹ میں اضافہ اور شرح تبادلہ میں مداخلت کی۔
آئی ایم ایف کی اسٹاف رپورٹ 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پر دستخط کے بعد جاری کی گئی، جس میں ساڑھے 6 ارب ڈالر کے ای ایف ایف کے مرحلہ وار پروگرام کی تفصیل بتائی گئی جو تقریباً 4 برسوں کے دوران بار بار پٹری سے اترا۔
آئی ایم ایف نے پروگرام کی مدت کو 3 مراحل میں تقسیم کیا، پہلا مرحلہ معیشت کو مستحکم کرنے میں کامیابی حاصل کرنا، دوسرا مرحلہ کورونا وبا جبکہ تیسرا ایک توسیعی اسٹاپ اینڈ گو مرحلہ ہے۔
دھچکوں کے تسلسل (کورونا وبا، یوکرین کی جنگ، 2022 کے سیلاب) اور پروگرام کے دوسرے نصف حصے میں کمپاؤنڈنگ پالیسی کی تبدیلی کے بعد ایڈجسمنٹس کی ضرورت تھی اور پروگرام کے اصل اہداف پہنچ سے باہر ہو گئے۔
جولائی 2019 کے فوراً بعد حکام کی فیصلہ کن پالیسی پر عمل درآمد نے پاکستان کے بڑے معاشی عدم توازن کو ختم کرنا شروع کر دیا، جس سے دسمبر 2019 میں پہلے جائزے کی کامیابی سے تکمیل ہو گئی، بیرونی ایڈجسٹمنٹ تیزی سے آگے بڑھی، مارکیٹ کی طرف سے طے شدہ شرح تبادلہ میں منتقلی ایک منظم طریقے سے آگے بڑھی اور مالیاتی کارکردگی مسلسل مضبوط ہوتی رہی۔
ای ایف ایف کے ابتدائی مرحلے میں بنائے گئے بفرز، ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کے ’ریپڈ فنڈنگ انسٹرومنٹ‘ کے تحت فوری مدد، ڈیٹ سروِسنگ معطلی اقدام اور دیگر شراکت داروں کی جانب سے پاکستان کو کورونا وبا کے شدید دھچکوں سے نمٹنے میں مدد ملی اور حکام کی پالیسیاں معیشت کو سہارا دینے میں اہم ثابت ہوئیں۔
صحت سے متعلق روک تھام کے اقدامات کے علاوہ ان کے ردعمل میں ایک عارضی مالی محرک، سماجی تحفظ کی توسیع، مانیٹری پالیسی سپورٹ اور ہدف بنائے گئے مالیاتی اقدامات شامل تھے۔
اگرچہ کورونا وبا کے درمیان پالیسی کی ترجیحات لامحالہ تبدیل ہوئیں اور عمل درآمد کی رفتار سست پڑ گئی لیکن حکام درمیانی مدت کے مقاصد کے حصول کے لیے پُرعزم رہے۔
یہ پروگرام مارچ 2021 میں دوسرے سے پانچویں مشترکہ جائزوں کی تکمیل کے ساتھ دوبارہ شروع ہوا اور اپریل 2021 میں پاکستان 2017 کے بعد پہلی بار عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہوا۔
اس مرحلے پر اُس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین میدان میں آئے، آئی ایم ایف نے کہا کہ مضبوط بحالی کے درمیان حکام مالی سال 2022 کے توسیعی بجٹ کی منظوری کے ساتھ ای ایف ایف کے راستے سے بھٹک گئے، جنوری 2022 میں حکام کی جانب سے منی بجٹ کی منظوری کے ساتھ رخ درست کرنے سے پہلے 2021 کے دوران ای ایف ایف ٹریک سے ہٹا رہا۔
آئی ایم ایف نے مزید کہا کہ تاہم غلط وقت میں مالیاتی توسیع اور مہنگائی کے بڑھتے ہوئے دباؤ پر مانیٹری پالیسی میں تاخیر کے ردعمل کے درمیان بیرونی عدم توازن بڑھنا شروع ہو گیا تھا۔
مزید برآں حکام نے ’ٹرمز آف ٹریڈ‘ کے دھچکے کو عارضی سمجھا، جس میں عملے کے مشورے کے خلاف غیر ملکی زر مبادلہ کی مداخلت کے رجحان کو کم کرنے کے لیے کردار ادا کیا گیا۔
کئی شعبوں میں تاخیر کے باوجود اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ میں ترامیم کی منظوری کے ساتھ اہم اصلاحات مکمل کی گئیں، ایک بار پھر فروری 2022 کے اوائل میں مکمل ہونے والے چھٹے جائزے کے ارد گرد پیدا ہونے والے مثبت رجحان نے پاکستان کو عالمی منڈیوں تک رسائی کی اجازت دی، یہ آخری موقع تھا جب پاکستان نے اس پروگرام کی مدت کے دوران تجارتی قرض دہندگان سے نئی مالی اعانت حاصل کی۔
دوسرا ’اسٹاپ اینڈ گو‘ مرحلہ چھٹے جائزے کی تکمیل کے چند ہفتوں بعد ہی شروع ہوا، روس-یوکرین تنازع کے بعد اجناس کی قیمتوں میں اضافے کے دوران حکومت نے ایندھن پر بڑی سبسڈی دے دی اور فارن ایکسچینج میں مداخلت کے ذریعے روپے کی بے قدری کے دباؤ کو روکنے کی کوششیں جاری رکھیں۔