آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح آنے والی نسلوں کیلئے کرنی ہے، چیف جسٹس

آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے جبکہ ہم نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح آج کے لیے نہیں آنے والی نسلوں کے لیے کرنی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔

لارجر بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانونی سوال پر عدالت اپنی رائے دینا چاہتی ہے، سوال صرف آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا ہے، تشریح وفاق پر لاگو ہو یا صوبوں پر یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ عدالت کی جو بھی رائے ہوگی تمام فریق اس کے پابند ہوں گے۔

اس موقع پر مسلم لیگ (ق) کے وکیل اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن میں عدالتی رائے کا احترام نہیں کیا گیا، اس سے قبل سینیٹ انتخابات میں صدارتی ریفرنس کے فیصلے پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے الیکشن کمیشن کو بار بار لکھا مگر عملدرآمد نہیں ہوا، سیاسی جماعتیں صدارتی ریفرنس کے فیصلوں پر عمل درآمد سے گریزاں ہیں۔

جسٹں اعجازالاحسن نے کہا کہ حسبہ بل پر ہمارے فیصلے پر عملدرآمد کیا گیا اور صدارتی ریفرنس پر دیے جانے والے فیصلے پر ہر ایک کو عملدرآمد کرنا ہوتا ہے، ہمارے پاس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی کوئی درخواست نہیں آئی، اگر کوئی درخواست آئی تو اس پر مناسب حکم جاری کریں گے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نئے اٹارنی جنرل بھی اپنی رائے دینا چاہتے ہیں، آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہلی ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے۔

اس موقع پر وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ موجودہ حکومت آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس لانے کا سوچ رہی ہے، اسی لیے نئے اٹارنی جنرل کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ امید ہے وفاقی حکومت اس آئینی معاملے پر آئین کی تشریح کو مکمل ہونے دے گی۔

اسپیکر رولنگ کے معاملے پر ازخود نوٹس لینے پر وضاحت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی جمہوریت کے لیے آرٹیکل 63 اے کی تشریح ضروری ہے، ازخودنوٹس کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ بینچ کی مرضی سے لیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کسی کی خواہش پر ازخود نوٹس نہیں لیا، ازخود نوٹس پہلے ایک بینچ کی سوچ ہوتی ہے اور پھر معاملہ چیف جسٹس تک لے جایا جاتا ہے، جو آخری ازخود نوٹس سپریم کورٹ نے لیا اس پر 12 ججز نے پہلے مشاورت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ سب کی رائے تھی کہ یہ آئینی معاملہ ہے اس پر ازخود نوٹس لینا چاہیے۔

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا کہ میں ایک آئینی بحث میں عدالت کی معاونت کروں گا، عدالت کا بڑا ادب اور احترام ہے۔

لارجر بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپکی ادب کی بات کی قدر کرتے ہیں، کاش یہ ادب احترام لوگوں میں بھی پھیلائیں جس پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ اس کام کے لیے وزارت اطلاعات موجود ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لوگوں کو بتائیں کہ عدالت رات کو بھی کھلتی ہے، بلوچستان ہائی کورٹ رات ڈھائی بجے بھی کھلی ہے۔

بابر اعوان نے کہا کہ اس بحث میں نہیں جانا چاہیے، وکالت میں اس سے مشکل حالات بھی دیکھے ہیں۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ آرٹیکل 63 اے اور 62 کو ملا کر پڑھا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ منحرف اراکین کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس فائل ہو چکے ہیں، ان کی نااہلی ریفرنس کے باوجود قانونی سوال اپنی جگہ پر موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے آئین کا حصہ ہے، الیکشن کمیشن میں نااہلی ریفرنس کے باوجود آرٹیکل 63 اے کی تشریح کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کرے گے، پارلیمانی جمہوریت کے لیے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا سوال بڑا اہم ہے۔

چیف جسٹس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح آج کے لیے نہیں آنے والی نسلوں کے لیے کرنی ہے، آئین ایک زندہ دستاویز ہے، آرٹیکل 63 اور 64 دونوں پر سیٹ خالی ہوجاتی ہے لیکن دونوں ایک نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آئین کی ان شقوں کے مقصد تک پہنچنا ہے، ہم نے انفرادی طور پر لوگوں کے عمل کے بجائے آئین کے اصولوں کو دیکھنا ہے، سپریم کورٹ کو 25 منحرف اراکین سے کوئی غرض نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس اور آئینی درخواستیں عدالت کے سامنے موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مخدوم علی خان کی التوا کی درخواست بھی آئی ہے جس پر معاون وکیل نے بتایا کہ مخدوم علی خان 15 مئی کی شام ملک واپس پہنچیں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے، مخدوم علی خان سے جلد واپس آنے کی درخواست کریں۔

چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کے معاون وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے مؤکل کو سینیٹ انتخابات سے متعلق عدالتی رائے پر عملدرآمد نہ ہونے پر تشویش ہے تو درخواست کیوں نہیں دی، عدالت اور ایگزیکٹو کے فنکشنز میں فرق ہوتا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت واقعے کے رونما ہونے کے بعد فیصلہ کرتی ہے چاہیے فیصلہ ٹھیک ہو یا غلط ہو، ریکوڈک کے معاملے پر ججز کے سامنے کتنے شواہد آئے تھے مخدوم علی خان کو معلوم ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریکوڈک کے معاملے میں ایگزیکٹو اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوئی تھی، اگر کوئی معاملہ عدالت کے سامنے لانا چاہتے ہیں تو درخواست دیں۔

معاون وکیل نے کہا کہ سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر عملدرآمد میرے موکل کی نہیں الیکشن کمیشن کی کوتاہی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک درخواست دکھا دیں جو سینیٹ الیکشن سے متعلق آپ کی جماعت کی طرف سے آئی ہو۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ بات سوچیں کہ یہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہے اور تمام متاثرہ فریقین نے اسی کے سامنے آنا۔

اس موقع پر بابر اعوان نے کہا کہ ہائی کورٹ نے صدر سے متعلق تضحیک آمیز ریمارکس دیے، صدر خاموش رہے، جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ صدر سے متعلق ریمارکس اگر درست نہیں تو درخواست دیں۔

عدالت نے تحریک انصاف کی آئینی درخواست پر بھی فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔

محمد اظہر صدیق نے کہا کہ میں شکر گزار ہوں کہ تحریک انصاف کی آئینی دراخواست پر نوٹسز جاری کر دیے ہیں اور اس درخواست پر دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی سنیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ عدالت پہلے ہی صدارتی ریفرنس پر نوٹس لے چکی ہے اور فریقین کے دلائل سن رہی ہے۔

عدالت نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت 10 مئی تک ملتوی کردی۔

  • آئین کی روح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انحراف کی لعنت کو روکنے اور انتخابی عمل کی شفافیت، جمہوری احتساب کے لیے آرٹیکل 63 اے کی کون سی تشریح قابل قبول ہوگی:

i) ایسی تشریح جو انحراف کی صورت میں مقررہ طریقہ کار کے مطابق رکن کو ڈی سیٹ کرنے کے سوا کسی پیشگی کارروائی مثلاً کسی قسم کی پابندی یا نئے سرے سے الیکشن لڑنے سے روکنے کی اجازت نہیں دیتی۔

ii) وہ مضبوط بامعنی تشریح جو اس طرح کے آئینی طور پر ممنوع عمل میں ملوث رکن کو تاحیات نااہل کر کے منحرف ووٹ کے اثرات کو بے اثر کر کے اس طرزِ عمل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

  • کیا ایک رکن جو آئینی طور پر ممنوع اور اخلاقی طور پر قابل مذمت حرکت میں ملوث ہو اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا یا اس طرح کے ووٹوں کو خارج کیا جاسکتا ہے؟
  • کیا وہ رکن جو اپنے ضمیر کی آواز سن کر اسمبلی کی نشست سے مستعفی نہیں ہوتا اور انحراف کا مرتکب ہو جسے ایماندار، نیک اور سمجھدار نہیں سمجھا جاسکتا وہ تاحیات نااہل ہوگا؟
  • موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے میں فلور کراسنگ، ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کے لیے کون سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

آرٹیکل 63 اے

آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

اگر پارلیمنٹیرین وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔

آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے لیکن اعلان کرنے سے قبل پارٹی سربراہ ‘منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا’۔

اراکین کو ان کی وجوہات بیان کرنے کا موقع دینے کے بعد پارٹی سربراہ اعلامیہ اسپیکر کو بھیجے گا اور وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔

بعدازاں چیف الیکشن کمیشن کے پاس اعلان کی تصدیق کے لیے 30 دن ہوں گے۔

آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے تصدیق ہو جاتی ہے، تو مذکورہ رکن ‘ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی’۔

اپنا تبصرہ بھیجیں